دہلی میں اومیکرون کی غضب رفتار، 4000 کورونا کیسز میں 84 فیصد اومیکرون!

دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے کہا کہ 2 دنوں کے دوران دہلی کے 3 لیباریٹریز سے جو جینوم سیکوئنسنگ کی رپورٹ آئی ہے، اس میں 84 فیصد کیسز اومیکرون کے ہیں۔

ستیندر جین، تصویر آئی اے این ایس
ستیندر جین، تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

دہلی میں کورونا وائرس، خصوصاً اومیکرون ویریئنٹ کی رفتار غضبناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ کورونا کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹے میں دہلی میں تقریباً کورونا کے 4000 کیسز سامنے آئے ہیں، اور ان میں 84 فیصد اومیکرون ویریئنٹ کے ہیں۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ملک کی راجدھانی میں کورونا ویریئنٹ بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔

دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین نے ایک بیان میں بتایا کہ دہلی میں اتوار کے روز کورونا کے 3194 کیسز سامنے آئے تھے اور پازیٹویٹی شرح 4.59 فیصد تھی۔ پیر کے روز یہ کیسز بڑھ کر تقریباً 4000 ہو گئے اور پازیٹویٹی شرح بھی بڑھ کر 6.5 فیصد ہو گئی۔ ساتھ ہی ستیندر جین نے بتایا کہ گزشتہ دو دنوں کے دوران دہلی کے تین لیباریٹریز آئی ایل بی ایس، ایل این جے پی اور این سی ڈی سی سے جو جینوم سیکوئنسنگ کی رپورٹ آئی ہے، اس میں 84 فیصد کیسز اومیکرون کے آئے ہیں۔


وزیر صحت کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ہفتے بھر میں تیسری لہر کا عروج دیکھنے کو مل سکتا ہے، لیکن یہ محض قیاس آرائی ہے۔ کیسز کے عروج کے حقیقی وقت سے متعلق کچھ بھی بتانا ممکن نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ لوگ احتیاط سے کام لیں اور کورونا پروٹوکول پر عمل کریں تو سختی بڑھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ایسا اس لیے کیونکہ ابھی تک ایسا اومیکرون مریض نہیں ہے جو آکسیجن یا ونٹلیٹر پر ہو۔

ستیندر جین نے کہا کہ جتنے بھی کیسز سامنے آ رہے ہیں، ان میں اسپتال کی بہت کم ضرورت پڑ رہی ہے۔ گزشتہ مرتبہ جب اتنے لوگ بیمار تھے تو بڑی تعداد میں لوگ اسپتالوں میں داخل ہوتے تھے۔ ابھی دہلی کے کورونا اسپتالوں میں دہلی کے صرف 202 لوگ داخل ہیں۔ وزیر صحت نے کہا کہ ابھی تک حالات بہت ہی کنٹرول میں ہیں۔ کیسز کی تعداد تو بڑھ رہی ہے، لیکن اس کے تناسب میں سنگین طور پر بیمار پڑنے والوں کی تعداد کم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اومیکرون کے کیسز ہی سامنے آتے رہے تو جلد ہی اس سے نجات مل سکتی ہے۔ جتنے بھی ممالک میں اس ویریئنٹ کا اثر دیکھنے کو ملا وہاں کیسز بہت تیزی کے ساتھ بڑھے، اور پھر تیزی سے نیچے بھی آ گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔