کانگریس کے قومی کنونشن میں ’نیائے پتھ‘ ہوا پاس، 19 نکات میں سمجھیں قرارداد کی اہم باتیں
کانگریس کے قرارداد میں بتایا گیا ہے کہ ایک طرف جہاں کانگریس کی قوم پرستی سماج کو متحد کرنا ہے، وہیں دوسری طرف بی جے پی-آر ایس ایس اپنی قوم پرستی سماج کو توڑنے میں سمجھتی ہے۔

کانگریس صدر کھڑگے (درمیان میں)، سونیا گاندھی (بائیں)، راہل گاندھی (دائیں)
گجرات کے احمد آباد میں کانگریس کے 2 روزہ قومی کنونشن میں ’نیائے پتھ‘ قرارداد کو منظوری مل گئی ہے۔ اس قرارداد میں مذکور ہے کہ مہاتما گاندھی کے کانگریس صدر منتخب ہونے کے صدی سال اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کی 150ویں جینتی والے سال میں انڈین نیشنل کانگریس ’نیائے پتھ‘ (انصاف کی راہ) کا عزم کرتی ہے۔ منظور شدہ قرارداد کے مطابق سردار پٹیل نے کہا تھا کہ جب عوام متحد ہو جاتی ہے تب ظالم ترین حکومت بھی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔ آج بی جے پی نے ملک کے لوگوں کے ساتھ مہنگائی، بے روزگاری، معاشی عدم مساوات، پولرائزیشن اور ظلم کی تمام حدیں پار کر دی ہے۔ یہی نہیں، حکومت میں بیٹھے حکمرانوں نے اقتدار کے ذریعہ مفاد حاصل کرنے کے مقصد سے آئین پر براہ راست حملے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس قرار داد میں کئی اہم نکات پر گفتگو کی گئی ہے، ذیل میں ہم اس کے اہم حصوں پر ایک سرسری نظر ڈالیں گے۔
1. کانگریس کی قوم پرستی سماج کو متحد کرنا ہے۔ بی جے پی-آر ایس ایس کی قوم پرستی سماج کو توڑنا ہے۔ کانگریس کی قوم پرستی ہندوستان کے تنوع کو اتحاد میں پرونے کا ہے۔ بی جے پی-آر ایس ایس کی قوم پرستی اتحاد کو ختم کرنے کا ہے۔ کانگریس کی قوم پرستی ہماری مشترکہ وراثت میں جاگزیں ہے اور بی جے پی-آر ایس ایس کی قوم پرستی تعصب سے پُر ہے۔
2. ہندوستان کا آئین 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا۔ بابا صاحب نے خود 25 نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں کہا تھا کہ کانگریس پارٹی کے بغیر آئین بنانا ناممکن تھا۔ آئین نے ایک لمحے میں ہزاروں سالوں کے تفریق، دقیانوسی تصورات کی بیڑیوں اور غلامی کو توڑ کر آزاد ہندوستان میں سب کو مساوات، انصاف اور برابری کا حق دیا۔ لیکن بی جے پی کی بنیادی تنظیم آر ایس ایس-جن سنگھ کو ہندوستان کا آئین پسند نہیں آیا اور انہوں نے آئین کو خارج کرنا شروع کر دیا۔ آئین میں دیے گئے حقوق کے تئیں ان کا بدنیتی پر مبنی یہ ارادہ آج تک قائم ہے۔
3. جیسے ہی بی جے پی پہلی بار مرکز میں برسراقتدار ہوئی، فروری 2000 میں ’آئین کا جائزہ‘ کے لیے کمیشن بنا کر آئین پر حملہ کرنے کی سازش کی۔ لیکن کانگریس کی مخالفت کی وجہ سے ان کے منصوبے کامیاب نہیں ہو سکے۔ 2024 کے لوک سبھا انتخاب میں ایک بار پھر بی جے پی کے لیڈران اور ان کے پارلیمانی امیدواروں نے 400 پار کا نعرہ دے کر آئین کو بدلنے کی اپنی بدنیتی کا کھل کر اظہار کیا۔ لیکن اہل وطن نے ایک بار پھر بی جے پی حکومت کو بیساکھیوں پر لا کر ان کی بدنیتی پر پانی پھیر دیا۔ اس کے باوجود 17 دسمبر 2024 کو وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں بابا صاحب امبیڈکر کی توہین کی۔ آئینی اداروں پر بی جے پی کے حملے بدستور جاری ہیں۔
4. حال ہی میں ایک جج کے گھر سے نقد پیسوں کی برآمدگی یقیناً تشویشناک ہے۔ کانگریس پارٹی کا خیال ہے کہ غیر جانبدار اور بے خوف عدلیہ ہی آئینی اقدار اور جمہوریت کے تحفظ کی ضامن ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عدلیہ کو خود احتسابی کے اپنے معیار خود طے کرنے ہوں گے۔ وفاقی ڈھانچوں پر ہو رہے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارا عزم غیر متزلزل ہے، خواہ وہ ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کی پرزور مخالفت ہو، جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دلانا ہو، ہمارے تعلیمی نظام کی خود مختاری اور غیر جانبداری کی بحالی ہو یا پھر منصفانہ حد بندیوں کو یقینی بنانا ہو۔
5. کانگریس نے تعمیری تعاون اور اجتماعی کوششوں کے ذریعہ وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ہم خیال سیاسی جماعتوں کے ساتھ بلکہ عوام سے متعلق مسائل پر مبنی دیگر ہم خیال دوست جماعتوں کے ساتھ مل کر ’انڈیا اتحاد‘ کی تشکیل کی۔ وقتاً فوقتاً ملک میں پیدا ہونے والے مسائل اور ایشوز کے سلسلے میں حکمراں حکومت کی جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے مستقبل میں بھی ہم دوست جماعتوں کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔
6. کانگریس کی نظریاتی بنیاد ’سماجی انصاف‘ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ملک اور معاشرہ استحصال زدہ، محروموں اور پسماندہ لوگوں کو پیچھے چھوڑ کر ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ آئین میں درج ریزرویشن کی بنیاد بھی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1951 میں جب سپریم کورٹ نے ریزرویشن کو خارج کیا تھا تو پنڈت جواہر لال نہرو کی قیادت والی حکومت نے آئین میں پہلی ترمیم کی اور بنیادی حقوق میں آرٹیکل 15(4) کو شامل کر کے ریزرویشن کا راستہ ہمیشہ کے لیے صاف کر دیا۔ ملک میں پسماندہ طبقات کے لیے 27 فیصد ریزرویشن بھی منڈل کمیشن کی رپورٹ کی بنیاد پر مرکز کی کانگریس حکومت نے ستمبر 1993 میں دیا۔ اس کے علاوہ کانگریس کی مرکزی حکومت نے 20 جنوری 2006 سے آئین میں 93ویں ترمیم کر کے آرٹیکل 15(5) کو جوڑ کر، تعلیمی اداروں میں بھی پسماندہ طبقات کو 27 فیصد ریزرویشن کا تاریخی حق دیا۔
7. 1951 میں ’پہلی آئینی ترمیم‘ سے سماجی انصاف کی جو پہل کانگریس نے کی تھی، اس کی باگ ڈور اب کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی نے اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ سماجی انصاف کی اس بنیاد کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری بہت ضرروی ہے۔ کانگریس کے ذریعہ کی گئی 2011 کی ’سماجی-معاشی ذات پر مبنی مردم شماری‘ کے نتائج کو بھی آج تک مودی حکومت نے شائع نہیں کیا۔ گزشتہ ایک دہائی میں حکمراں جماعت نے ایس سی-ایس ٹی ’سَب پلان‘ اور اس کے مختص بجٹ کو یکطرفہ طور پر ختم کر دیا۔ یہی نہیں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی ریزرویشن پر 50 فیصد کی مصنوعی حد مقرر کر دینا خود ان طبقات کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ او بی سی، ایس سی-ایس ٹی طبقات کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے آئینی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ یہ برسر اقتدار بی جے پی کی ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی مخالف چہرے کو ظاہر کرتا ہے۔
8. کانگریس کے ذریعہ بنائے گئے قانون، مثلاً پیسا (پی ای ایس اے) 1996، فاریسٹ رائٹس ایکٹ 2006، لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 2013 کو جان بوجھ کر کمزور کیا جا رہا ہے۔ آئین میں قبائلیوں کو حقوق دینے والے پانچویں اور چھٹے شیڈول کو بھی کمزور کیا جا رہا ہے۔ کانگریس پارٹی اس بات کے لیے پابند عہد ہے کہ ہم مرکزی قانون بنا کر ایس سی-ایس ٹی سب-پلان کو قانونی شکل دیں گے اور ان طبقات کو ان کی آبادی کی بنیاد پر بجٹ میں حصہ داری دیں گے۔ ہم ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی طبقات کے ریزرویشن کے لیے مصنوعی طور سے طے شدہ 50 فیصد کی حد کو ہٹانے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ انہیں سماجی انصاف کا پورا فائدہ مل سکے۔
9. کانگریس پارٹی کی پالیسیاں ہمیشہ مزدوروں کے معاشی اور سماجی ترقی کے لیے رہی ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں مرکزی حکومت نے منریگا سمیت تمام مزدور دوست قوانین کو منظم طریقے سے کمزور کر دیا ہے۔ کانگریس پارٹی گگ پلیٹ فارم اور غیر منظم شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کے لیے نئے قوانین کی ضرورت کی زبردست حامی ہے۔
10. سردار پٹیل نے کانگریس کے 18 دسمبر 1948 کے جے پور کنونشن میں کہا تھا کہ کانگریس اور حکومت اس بات کے لیے پُرعزم ہے کہ ہندوستان ایک حقیقی سیکولر ریاست ہو۔ سیکولرزم میں ہمارا غیر متزلزل یقین ہے۔ دوسری جانب بی جے پی حکومت اور اس کی تنظیم ’طاقت کی خود غرضی‘ اور ’ووٹ کی سیاست‘ کے لیے ملک کی اس بنیادی روح کا گلا گھوٹنے پر آمادہ ہے۔ مذہبی جنونیت پھیلانے کی نیت سے مسلمانوں اور عیاسئیوں پر کیے جا رہے حملوں نے ان طبقات کو خوف کے ماحول میں جینے پر مجبور کر دیا ہے۔ وقف بورڈ ترمیمی قانون ہو یا عیسائی مذہب کے گرجا گھروں کی زمینی اور املاک کو لے کر اٹھنے والے تنازعے ہوں، دونوں ہی اسی تقسیم کی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔
11. مضبوط خواتین، مثلاً اینی بیسنٹ، سروجنی نائیڈو، نیلی سین گپتا، اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی نے قومی صدر کے طور پر ہمیشہ کانگریس کی رہنمائی کی ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کا سفر کانگریس نے آئین میں خواتین کو برابری کا بنیادی حق دے کر شروع کیا۔ پہلی بار راجیو گاندھی کے دور اندیش فیصلے کی وجہ سے 1993 میں آئین میں خواتین کو پنچایتی راج اداروں اور بلدیات میں تاریخی ایک تہائی ریزرویشن کا التزام کیا گیا۔ ستمبر 2023 میں پارلیمنٹ میں خواتین ریزرویشن بل منظور تو ہوا لیکن آج تک اسے نافذ نہیں کیا گیا۔ کانگریس کا یقین ہے کہ ملک تبھی ترقی کر سکتا ہے جب اس کی نصف آبادی کو نہ صرف مکمل حقوق حاصل ہوں بلکہ برابری کا درجہ، احترام اور بااختیار بنانے میں مکمل حصہ داری بھی ملے۔
12. برطانوی حکومت کے خلاف چمپارن (بہار) میں کسانوں کی تحریک سے لے کر مہاتما گاندھی اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں کھیڑا اور بارڈولی کے کسانوں کے ستیاگرہ تک کسانوں کی لڑائی کانگریس اور کسانوں کے درمیان اٹوٹ رشتے کا ثبوت ہے۔ آزادی کے بعد فصل کی خریداری کے لیے بنائے گئے ’کم از کم سپورٹ پرائس سسٹم‘ سے لے کر ’سبز و سفید‘ انقلاب تک، کانگریس کی پالیسیاں کسان دوست رہی ہیں۔ وزیر اعظم لال بہادر شاستری کا نعرہ ’جئے جوان، جئے کسان‘ آج بھی پورے ملک میں گونجتا ہے۔
13. انگریزوں کے راستے پر چلتے ہوئے آج کی حکومت کے متکبر حکمران ایک بار پھر 3 ’زراعت مخالف سیاہ ظالمانہ قوانین‘ لے کر آئے تھے، تاکہ کسانوں کے کھیت کھلیان اور آمدنی چھین کر اسے غلام بنایا جا سکے۔ کانگریس عزم مصمم کرتی ہے کہ کسانوں کو ایم ایس پی کا قانونی حق بھی دے گی اور لاگت سے 50 فیصد زیادہ امدادی قیمت بھی طے کرے گی۔ ساتھ ہی کسانوں کو قرض سے نجات دلانے کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھائے گی۔
14. جامع ترقی اور اقتصادی لبرلائزیشن کی پالیسیوں کے ذریعے انڈین نیشنل کانگریس کی حکومتوں نے ملک کو معاشی طاقت دی۔ 2004 سے 2014 تک، منموہن سنگھ کی قیادت والی کانگریس حکومت نے ملک میں پہلی بار اوسط اقتصادی ترقی کی شرح کو 8 فیصد تک پہنچایا۔ گزشتہ ایک دہائی میں موجودہ حکمرانوں نے حقوق پر مبنی ہندوستان کی روح کو روند کر مٹھی بھر لوگوں کے معاشی مفادات کی تکمیل کے لیے اپنی خواہش کے مطابق معیشت تشکیل دی ہے۔ 2011 کے بعد مردم شماری نہ کر کے انہوں نے 11 کروڑ لوگوں کو خوراک کے حق سے محروم کر دیا۔ آج ملک کے ایک فیصد امیروں کے پاس ملک کی 40 فیصد سے زیادہ دولت ہے۔ ملک کے 10 فیصد امیروں کے پاس ملک کی مجموعی دولت کا 70 فیصد حصہ ہے، لیکن ملک کی 50 فیصد غریب اور عام آبادی کے پاس صرف مجموعی دولت کا محض 6.4 فیصد حصہ ہے۔
15. کانگریس کی حکومتوں نے اپنی خارجہ پالیسی سے عالمی سطح پر ہندوستان کی ساکھ قائم کی اور عالمی قیادت بھی کی۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے وقت کی کسوٹی پر ثابت شدہ ہماری خارجہ پالیسی کو ذاتی برانڈنگ اور مفاد پرستی کی پالیسی میں تبدیل کر دیا ہے۔ کانگریس پارٹی کا خیال ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی گھریلو سیاسی ایجنڈے کی بنیاد پر تقسیم کا موضوع نہیں ہو سکتی، جیسا کہ برسراقتدار حکومت کر رہی ہے۔ آج چین نے مشرقی لداخ میں ہندوستان کی سرزمین پر ہزاروں مربع کلومیٹر میں قبضہ کر رکھا ہے۔ لیکن جھوٹی ’لال آنکھ‘ کی بات کرنے والی بی جے پی حکومت آج تک چین سے اپریل 2020 سے پہلے کی حالت کو سرحد پر بحال نہیں کر پائی ہے۔ بنگلہ دیش میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں– ہندوؤں، بدھسٹوں اور عیسائیوں کے لیے ایک غیر محفوظ ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
16. فلسطین-اسرائیل جنگ میں ہو رہی غزہ پٹی میں ہزاروں بے قصوروں کی موت، بمباری و شورش پسندی کے واقعات پر موجودہ حکومت کی خاموشی ہندوستانی اسٹریٹجی کے برعکس ہے۔ کانگریس پھر دہراتی ہے کہ بات چیت و امن مذاکرہ سے ہی حل نکلے گا اور اقوام متحدہ کے قرارداد کے مطابق فلسطین کی تشکیل عمل میں آئے۔ کاگنریس ہندوستان اور امریکہ کے درمیان گہرے رشتوں کے حق میں ہے، لیکن یہ ہندوستان کے قومی مفادات کی قیمت پر نہیں ہو سکتا۔ جب وزیر اعظم واشنگٹن ڈی سی گئے تو ان کی موجودگی میں ہندوستان کو ’ٹیرف ایبیوزر‘ کہہ کر بے عزت کیا گیا۔
17. امریکہ نے ہندوستان کے ذریعہ امریکہ کو ایکسپورٹ کی جانے والی سبھی مصنوعات پر 27 فیصد ٹیرف لگا دیا ہے۔ اس سے ہندوستانی ایکسپورٹ وسیع طور سے متاثر ہوگا۔ دوسری طرف ہندوستان پر امریکہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ ہم امریکی مصنوعات پر لگائے جانے والے درآمدات ٹیکس کم کر دیں۔ موجودہ بی جے پی حکومت کے لیے غیر ملکی پالیسی قومی مفادات کی حفاظت، برابری کے درجہ اور یکسر احترام کی پالیسی نہ ہو کر اب ’مجبور پالیسی‘ بن گئی ہے۔
18. کانگریس تنظیم کی بنیاد آزادی کی تحریک میں پڑی ہے۔ یہ تحریک غلامی کی بیڑیاں توڑ کر ہندوستانی شہریوں کے حق اور اختیارات کی لڑائی کے لیے تھی۔ جب جب ذات یا مذہب کی بنیاد پر، غریب اور امیر کے معاشی عدم مساوات کی بنیاد پر، محروموں یا استحصال زدگان و متاثرین کے ساتھ ہو رہی تفریق کی بنیاد پر ناانصافی ہوتی ہے تو کانگریس تنظیم عوامی تحریک کی شکل میں ہمیشہ کھڑی ہو جاتی ہے۔ بیلگاوی کی خصوصی کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں 2025 کو تنظیم کی مضبوطی کا سال قرار دیا گیا ہے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ اس سال ہم اپنی تنظیم کو اتنا مضبوط کریں گے کہ بڑی سے بڑی متکبر اور استحصال کرنے والی طاقتوں کو تنظیمی طاقت سے ہرایا جا سکے۔
19. آج مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کی پاکیزہ زمین ملک بھر سے آئے کانگریس کارکنان سے اپیل کر رہی ہے کہ ہم سب متحد ہو جائیں اور پختہ ارادہ کے ساتھ انصاف کا عزم لے کر جدوجہد کی راہ پر آگے بڑھتے جائیں۔ آج ملک بے حد مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ اپنے سبھی ساتھی کارکنان کی موجودگی میں انڈین نیشنل کانگریس یہ عزم کرتی ہے کہ کانگریس اپنی بے پناہ تنظیمی صلاحیت، اہلیت اور استعداد کار کی بنیاد زیادہ سے زیادہ وسیع کرے گی اور انصاف کو جیت دلائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔