انتخابات کے دوران پرکشش وعدوں پر سپریم کورٹ کا مرکز اور الیکشن کمیشن کو نوٹس

چیف جسٹس کی سربراہی والی جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے مرکز اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کے ساتھ ہی کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت چار ہفتے بعد کرے گی۔

سپریم کورٹ کی تصویر، آئی اے این ایس
سپریم کورٹ کی تصویر، آئی اے این ایس
user

یو این آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کے انتخابات کے دوران مبینہ طور پر ناقابل عمل وعدے کرنے کے معاملے میں مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کو منگل کے روز نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا۔ چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور وکیل اشونی کمار اپادھیائے کی ایک مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا۔ چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل وکاس سنگھ سے پوچھا کہ درخواست میں صرف دو سیاسی جماعتوں کا ہی کیوں ذکر کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے صرف پنجاب کا ذکر کرنے پر بھی سوالات کئے۔

وکاس سنگھ نے بنچ کو بتایا کہ انتخابات کے وقت تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے پرکشش وعدے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ناقابل عمل وعدوں کا بوجھ آخر کارعوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ انہوں نے اس عرضی کو اہم بتاتے ہوئے مرکز اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنے اور جلد سماعت کرنے کی گزارش کی جسے سپریم کورٹ نے قبول کرلیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے مرکز اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کے ساتھ ہی کہا کہ وہ اس معاملے کی سماعت چار ہفتے بعد کرے گی۔


اشونی کمار اپادھیائے نے اسمبلی انتخابات سے پہلے عوامی پرکشش وعدوں کو منصفانہ انتخابات کی جڑوں کو ہلانے والا قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ہفتہ کو ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے تناظر میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پاپولسٹ وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عوامی فنڈز سے مفت تحائف کے غیر معقول وعدوں نے ووٹروں کو غیر ضروری طور پر متاثر کیا ہے، لہٰذا سپریم کورٹ اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دے کہ وہ متعلقہ جماعتوں کے انتخابی نشانات ضبط کرے اور ان کا رجسٹریشن منسوخ کر دے۔

اشونی کمار اپادھیائے نے اپنی درخواست میں سیاسی جماعتوں کے مبینہ غیر معقول وعدوں کو "رشوت" اور "غیر معقول" طور سے متاثرکرنے کے مترادف سمجھا ہے۔ درخواست میں سیاسی جماعتوں کے ان مبینہ غیر معقول پرکشش عوامی وعدوں کو آئین کے آرٹیکل 14، 162، 266(3) اور 282 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے پنجاب کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے سیاسی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پنجاب حکومت کے خزانے سے ماہانہ 12000 کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی، شرومنی اکالی دل کے اقتدار میں آنے پراس کے وعدے پورا کرنے کے لئے ماہانہ 25000 کروڑ روپے اور کانگریس کے اقتدار میں آنے پر اس کے وعدوں کے لئے 30000 کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی، جب کہ سچائی یہ ہے کہ ریاست میں جی ایس ٹی کی وصولی صرف 1400 کروڑ ہے۔


درخواست گزار کا کہنا ہے کہ سچ یہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد پنجاب حکومت ملازمین اور افسران کی تنخواہ اور پنشن نہیں دے پا رہی ہے تو پھر مفت تحفے دینے کا وعدہ کیسے پورا کرے گی۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ کڑوا سچ یہ ہے کہ پنجاب کا قرض ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔ ریاست کا بقایا قرض بڑھ کر 77,000 کروڑ روپے ہو گیا ہے۔ موجودہ مالی سال میں ہی 30,000 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ قابل ذکر ہے کہ عرضی میں کسی دوسری ریاست اور بی جے پی یا دیگر سیاسی جماعتوں کے وعدوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے اس حوالے سے ذکر نہ کرنے پر درخواست گزار سے سوالات کیے تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔