’مفت سہولیات کا اعلان کرنے والی پارٹیوں کی منظوری رَد کرنے کا اختیار نہیں‘، سپریم کورٹ میں انتخابی کمیشن کا بیان

الیکشن کمیشن نے بتایا کہ اس کے پاس کسی پارٹی کی منظوری رد کرنے کی طاقت بہت محدود معاملوں میں ہے، وہ ایسا تبھی کر سکتا ہے جب یہ ثابت ہو کہ اس پارٹی نے دھوکے یا فرضی طریقے سے منظوری حاصل کی تھی۔

الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ
الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ
user

قومی آوازبیورو

انتخابی کمیشن نے سپریم کورٹ میں بتایا ہے کہ وہ مفت کی چیزیں تقسیم کرنے کا وعدہ کرنے والی پارٹیوں کی منظوری رد نہیں کر سکتا۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا اس کے حلقہ اختیار میں آتا ہی نہیں ہے۔ ایک عرضی پر عدالت میں داخل جواب میں کمیشن نے یہ بھی کہا کہ کسی حکومت کی پالیسی کیا ہوگی، اسے الیکشن کمیشن کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اگر ایسے اعلانات کو پورا کرنے سے کسی ریاست کی معاشی حالت بگڑتی ہے تو اس پر ریاستی عوام کا فیصلہ لینا ہی مناسب ہے۔

الیکشن کمیشن نے یہ جواب 25 جنوری کو سپریم کورٹ کی طرف سے جاری نوٹس پر دیا ہے۔ عدالت نے بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے کی عرضی پر یہ نوٹس جاری کیا تھا۔ عرضی میں مفت کی چیزیں تقسیم کرنے کا وعدہ کرنے والی پارٹیوں کی منظوری رد کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اعلانات ایک طرح سے ووٹرس کو رشوت دینے جیسی بات ہے۔ یہ اعلانات نہ صرف انتخاب میں امیدواروں کو نابرابری والی حالت میں کھڑا کر دیتے ہیں بلکہ انتخاب کے بعد سرکاری خزانے پر بھی غیر ضروری بوجھ ڈالتے ہیں۔


الیکشن کمیشن نے بتایا کہ اس کے پاس کسی پارٹی کی منظوری رد کرنے کی طاقت بہت محدود معاملوں میں ہے۔ وہ ایسا تبھی کر سکتا ہے جب یہ ثابت ہو کہ اس پارٹی نے دھوکے یا فرضی طریقے سے منظوری حاصل کی تھی، یا پھر پارٹی اپنے آئین پر عمل نہیں کر رہی ہے۔ کمیشن نے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ اس نے اس طاقت کی توسیع کے لیے 2016 میں مرکزی حکومت کو تجویز بھیجی تھی، لیکن ابھی اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ وہ صرف یہی دیکھتا ہے کہ کسی پارٹی کی طرف سے کیے گئے اعلانات مثالی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہیں یا نہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔