کمزور نتیش کابینہ میں کیا کوئی مسلم وزیر ہوگا! لگتا تو نہیں... سید خرم رضا

ملک کو امریکہ سے سبق لینا چاہیے کہ وہاں کی اکثریت نے اس کو تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا جس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی اور جس نے نسل پرستی کے تعصبات کو ہوا دی اس کو شکست کا مزہ چکھایا۔

نتیش کمار / تصویر یو این آئی
نتیش کمار / تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

امریکی صدارتی انتخابات اور بہار اسمبلی کے نتیجے آ گئے ہیں۔ ہندوستان میں دونوں کے نتیجوں پر سب کی نظریں تھیں۔ چاہے ٹرمپ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن امریکی عوام نے بہت واضح انداز میں انہیں پیغام دے دیا ہے کہ امریکہ کو ان کی جیسی سیاست کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے امریکہ میں الیکشن نتائج آنے کے بعد بھی تھوڑا تجسس بنا ہوا ہے، لیکن جب وہاں کےعوام نے ووٹوں کے ذریعہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر دیا ہے تو وہ ٹرمپ کو وہائٹ ہاؤس سے بے دخل کرنے کے لئے بھی ضروری قانونی اقدام لینے سے گریز نہیں کریں گے۔ بہار میں ایک مرتبہ پھر وہاں کے عوام نے نتیش کی قیادت والے این ڈی اے اتحاد کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی ہے۔ نتیش کی حلف برداری بھی ہو گئی ہے لیکن ان کی کابینہ میں کوئی منتخب مسلم وزیر نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس اتحاد سے کوئی بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہوا ہے۔ امریکہ میں جہاں ٹرمپ کو اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ تفریق کی سیاست کر رہے تھے اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات نہیں کر رہے تھے وہیں بہار میں ایسا اتحاد کامیاب ہوا جس میں ریاست کی ایک بڑی آبادی کی کوئی نمائندگی ہی نہیں ہے۔

جے پرکاش نرائن نے جو بدعنوانی کی تحریک شروع کی تھی وہ دراصل بہار کے واحد مسلم وزیر اعلی عبد الغفور کے خلاف تھی۔ عبد الغفور جو مجاہد آزادی بھی تھے اور آزادی کی جدوجہد میں جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کی تھیں، ان کی حکومت پر بدعنوانی کا الزام آج تک کسی کے حلق سے نہیں اترا۔ جے پرکاش نرائن تحریک میں سب سے پیش پیش سنگھ کی طلباء تنظیم یعنی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد تھی، اس کی شمولیت نے تحریک کے مقصد پر بہت سوال کھڑے کیے ہیں۔ دراصل کسی حکومت کے خلاف عوام میں غصہ پیدا کرنے کے لئے بدعنوانی سب سےموثر ہتھیار ہے۔ یہ ہم نے وی پی سنگھ کے بوفورس معاملہ میں بھی دیکھا اور منموہن سنگھ کی حکومت پر 2 جی معاملہ میں بھی دیکھا۔ بدعنوانی کے نام پر عوام حکومتیں تو بدل دیتے ہیں لیکن ان بے چارے عوام نے کبھی ان معاملوں کو ثابت ہوتے ہوئے نہیں سنا۔ تو کیا پوری تحریک مسلم وزیر اعلی کو ہٹانے کے لئے تھی، اگر ایسا تھا تو آج نتیش کمار نے اس تحریک کو حقیقی انجام تک پہنچا دیا ہے۔ اس نئے اتحاد میں انہوں نے بی جے پی کا تو قد بڑا کیا ہی ہے ساتھ میں یہ بھی یقینی بنایا ہے کہ کوئی مسلم وزیر تو دور کی بات رکن اسمبلی بھی نہ بنے۔


بہار پہلی ریاست نہیں ہے جہاں حکمراں جماعت میں کوئی بھی مسلم امیدوار نہیں ہے۔ مرکز میں بر سر اقتدار بی جے پی سے کوئی بھی منتخب مسلم امیدوار نہیں ہے، اتر پردیش، ہریانہ اور کئی ریاستوں کا یہی حال ہے۔ مرکز اور اتر پردیش میں راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسل کے ارکان کو وزیر بنایا گیا ہے۔ جو پارٹیاں سب طبقوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کرتی ہیں ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے، جیسے وہ ہندوستان کی سیاسی جماعتیں نہ ہوں بلکہ دوسرے ممالک کی ہوں۔ اس سوچ کا سب سے زیادہ فائدہ مسلمانوں میں خوف کی دکان چلانے والے اویسی جیسوں کو ہوتا ہے۔ اویسی مہاراشٹر میں اپنا کھیل دکھانے کے بعد اب بہار میں بھی دکھا چکے ہیں اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

ملک کو امریکہ سے سبق لینا چاہیے کہ وہاں کی اکثریت نے اس کو تاریخی فتح سے ہمکنار کرایا جس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی اور جو نسل پرستی اور امریکی و باہری کے تعصبات کو ہوا دیتا رہا اس کو شکست کا مزہ چکھایا۔ کورونا وبا کا اگر سب سے بڑا کوئی پیغام ہے تو وہ یہ ہے کہ مستقبل سب کے ساتھ چلنے میں ہے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ تعمیر کرنے میں نہیں ہے۔ نفرت کو ختم کر کے لئے پیار اور محبت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔