تمام زور لگانے کے باوجود وزیر اعظم کی پارٹی لالو کے بیٹے سے پیچھے رہ گئی... سید خرم رضا

عظیم اتحاد ہارا ضرور ہے لیکن سپر اوور میں، اگر میڈیا حزب اختلاف کی خامیاں عوام کو بتانے کے بجائے بر سراقتدار جماعت سے سوال کرنے کا حوصلہ پیدا کر لے تو یہ ملک اور پیشے کو وقار بخشے گا۔

تیجسوی یادو / تصویر یو این آئی
تیجسوی یادو / تصویر یو این آئی
user

سید خرم رضا

ملک کی ہر خرابی کے لئے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرا کر اور اچھے دن کے خواب دکھا کر بی جے پی اقتدار میں آئی بھی اور ابھی ہے بھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے اپنی ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ ہندوستان کو کانگریس سے پاک یعنی کانگریس ’مکت بھارت‘ بنانے کے بیڑا اٹھایا۔ شروع میں جس طرح ایک کے بعد ایک ریاست کانگریس کے ہاتھ سے گئیں اس سے ایسا لگنے لگا کہ بی جے پی کا یہ خواب جلد پورا ہو جائے گا، لیکن اب مرکز میں چھ سال کی حکومت کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خواب ویسے ہی پورا نہیں ہوگا جیسے عوام سے کیے گئے وعدہ ’اچھے دن‘ کبھی نہیں آئے۔ آج چھ سال بعد بھی کانگریس بی جے پی کا درد سر بنی ہوئی ہے۔

بہر حال چھ سال میں کچھ چیزیں نمایاں طور پر بدل گئی ہیں۔ اب کوئی بھی مین اسٹریم میڈیا حکومت وقت سے کسی بھی فیصلہ کے لئے سوال نہیں کرتا بلکہ وہ سوال کرتا ہے تو حزب اختلاف سے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چونکہ ایک لمبے وقت تک کانگریس ہی اقتدار میں رہی ہے اور میڈیا کانگریس سے ہی سوال کرتا رہا ہے، اب بھلے حکومت بدل گئی ہے، لیکن وہ سوال تو کانگریس سے ہی کرے گا، یہ عادت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ میڈیا کے اس رویہ سے ملک کو کتنا فائدہ ہوگا اور میڈیا کے وقار کو کتنا فائدہ ہوگا یہ تو وہی جانیں، لیکن بر سراقتدار جماعت کو تو فائدہ ہے ہی، کیونکہ ان سے کوئی سوال ہی نہیں کر رہا۔ سوال کرنا تو دور کی بات ہے میڈیا کو وزیر اعظم کی تعریف کرنے سے فرصت ہی بہت کم ملتی ہے اور جو فرصت ملتی ہے تو اس خالی وقت میں کانگریس کی خامیاں اور راہل گاندھی کی قیادت پر سوال اٹھانے کے لئے ہیں نہ بھئی۔


ہر انتخابات کے بعد چاہے کانگریس الیکشن جیتی ہی کیوں نہ ہو ہمیشہ اس کی خراب کار کردگی ہی پیش کی جاتی ہے، راہل گاندھی کو ہر نتیجے کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے اور وزیر اعظم کی تعریف کے پل باندھ کر ایسا پیش کیا جاتا ہے کہ بس ان کی وجہ سے ملک اور دنیا صحیح سمت میں چل رہی ہے۔ بہار کے نتیجوں کو بھی ایسے ہی پیش کیا گیا۔ عظیم اتحاد اگر اکثریت سے دور رہ گیا تو اس کے لئے کانگریس اور راہل گاندھی ذمہ دار ہیں۔ نتیش کمار کی قیادت میں جیسے تیسے این ڈی اے کو حکومت بنانے کے لائق نمبر مل گئے تو اس کا سارا سہرا وزیر اعظم مودی کے سر۔ محض ساڑھے بارہ ہزار ووٹوں اور پندرہ سیٹوں کے فرق سے اقتدار حاصل کرنے کو جیت قرار دی جا رہا ہے اور جیت بھی کس کے خلاف جس میں کانگریس جیسی ناکارہ پارٹی ہو، راہل گاندھی جیسے رہنما ہوں اور ہندوستان کے سب سے بدعنوان سیاست داں کا آٹھویں جماعت پاس بیٹا ہو۔ ان کو ہرایا کس نے ہے، سوشان بابو نتیش کمار نے اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اور وہ بھی اتنے کم فرق سے۔ ویسے بدعنوان سیاست داں کی پارٹی کو وزیر اعظم اور امت شاہ کی پارٹی سے زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔ کمال ہے کہ ہمارے میڈیا اس بات کا جشن منا رہا ہے ہیں کہ وزیر اعظم نے تمام ایگزٹ پول کو فیل کر دیا۔

میڈیا یہ بات تو خوب پیش کر رہا ہے کہ کانگریس کی خراب کارکردگی کی وجہ سے عظیم اتحاد کو نقصان ہوا ہے لیکن کیا کسی میڈیا نے یہ بات بتائی کہ اگر آر جے ڈی-کانگریس کے بغیر لڑتی تو کیا اسے اتنی سیٹیں مل جاتیں۔ بہار کی سیاست سے واقف لوگوں سے پوچھنے پر جب عام آدمی کو اس کا جواب نفی میں مل جاتا ہے تو میڈیا اس حقیقت کو کیوں چھپاتی ہے۔ شکست کے بعد کچھ بھی کہیے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جس طرح عظیم اتحاد کی انتخابی مہم بہار میں چلی ہے اس کا سہرا صرف اور صرف کانگریس کو جاتا ہے۔ تیجسوی جہاں میدان میں بلے بازی کر رہے تھے وہیں کانگریس کی نوجوان ٹیم اور بایاں محاذ اپنا کام پورے تن من سے کر رہے تھے۔ اس اتحاد کا فائدہ زمینی سطح پر نظر آیا اور انتخابی نتائج سے صاف ظاہر بھی ہے۔ اگر ای ڈی اے کو اویسی کی مدد شامل نہیں ہوتی تو سوشان بابو کے لئے مذید مشکلیں پیدا ہوجاتیں۔ نتیش بابو اور بی جے پی کو اویسی کا شکر گزار ہو نا چاہیے۔


سارا میڈیا بہار کے گن گا رہا ہے کہ وہاں کے ووٹروں نے بہت اچھا فیصلہ لیا ہے اور ان کو یہ فیصلہ اس لئے اچھا نظر آ رہا ہے کیونکہ اس میں غریب اور پریشان حال عوام کی ہار ہوئی ہے اور سماج کے اعلی طبقہ کی جیت ہوئی ہے۔ وہ اس لئے بھی خوش ہیں کہ کانگریس کے اتحاد کی ہار ہوئی ہے اور وزیر اعظم کے اتحاد کی جیت ہوئی ہے۔ بہار کے نتائج نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ بی جے پی کا کانگریس ’مکت‘ ہندوستان کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ آج بھی بی جے پی کے لئے کوئی سب سے بڑا مسئلہ ہے تو وہ کانگریس اور راہل گاندھی ہیں، کیونکہ بی جے پی کی اعلی قیادت سے لے کر میڈیا آج بھی راہل گاندھی اور کانگریس کو کٹگھرے میں کھڑا کر رہا ہے اورحقیقت کو پوری طرح سے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ عظیم اتحاد ہارا ضرور ہے لیکن سپر اوور میں۔ میڈیا اگر حزب اختلاف کی خامیاں عوام کو بتانے کے بجائے بر سر اقتدار جماعت سے سوال کرنے کا حوصلہ پیدا کر لے تو یہ ملک اور پیشے کو وقار بخشے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔