مودی حکومت کا نیا نعرہ ’بھگوڑوں کا ساتھ بھگوڑوں کا وِکاس‘: کانگریس

کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں عوام کے خون پسینے کی کمائی کو بچانے اور بدعنوان مودی حکومت کی حقیقت لوگوں کے سامنے لانے کے لیے زبردست عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ لیا گیا۔

تصویر اے آئی سی سی
تصویر اے آئی سی سی
user

قومی آوازبیورو

4 اگست کو کانگریس صدر راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کی دوسری میٹنگ منعقد ہوئی جس میں این آر سی کے عمل، مودی حکومت کی بدعنوانی، اقتصادیات کی بگڑتی حالت، بڑھ رہی بے روزگاری اور ملک میں پھیلے زراعتی بحران پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ اس میٹنگ میں مودی حکومت کے ذریعہ بینکنگ سیکٹر کو پہنچائے جا رہے نقصان پر خصوصی تبادلہ خیال ہوا جس میں کہا گیا کہ اب اس حکومت کا نیا نعرہ ’بھگوڑوں کا ساتھ بھگوڑوں کا وِکاس‘ ہو گیا ہے۔

کانگریس ورکنگ کمیٹی میں ہوئی باتوں سے متعلق پریس کانفرنس کرتے ہوئے پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا کہ ’’کانگریس صدر راہل گاندھی کی قیادت میں ہوئی میٹنگ میں لگاتار ہو رہے بینک گھوٹالے پر بات ہوئی اور یہ اخذ کیا گیا کہ مودی حکومت عوام کے پیسوں کو غلط ہاتھوں میں نہ صرف پہنچا رہی ہے بلکہ اسے ملک سے بھگانے میں بھی مدد کر رہی ہے۔‘‘ سرجے والا مزید کہتے ہیں کہ ’’مودی حکومت کا نیا نعرہ ’بھگوڑوں کا ساتھ اور بھگوڑوں کا وِکاس‘ بن گیا ہے اور اس کی سب سے تازہ مثال میہل چوکسی ہیں جنھیں انٹگوا کی شہریت حاصل ہو چکی ہے اور اس میں انھیں مودی حکومت کا تعاون حاصل ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ بینکوں کے بھگوڑے اور 24 ہزار کروڑ کا گھوٹالہ کر کے بھاگ گئے میہل چوکسی اور نیرو مودی کو مرکزی حکومت اور سیبی کے ذریعہ کلین چٹ ملی تھی تبھی وہ یہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو سکا اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ مودی حکومت بھگوڑوں کو بھگانے میں خود ملوث ہے۔

سرجے والا نے بتایا کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں اس بات کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کو بچانے اور بدعنوان مودی حکومت کی حقیقت لوگوں کے سامنے لانے کے لیے زبردست عوامی تحریک چلانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ کانگریس ترجمان نے بتایا کہ ’’کانگریس صدر راہل گاندھی کی قیادت میں ہوئی میٹنگ میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کے اندر کانگریس رکن پارلیمنٹ عوام کے مفادات سے متعلق آواز اٹھائیں اور پارلیمنٹ سے باہر کانگریس لیڈران و کارکنان ایک ایسی عوامی تحریک شروع کریں جو مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں اور بدعنوانیوں کو سبق سکھائیں۔‘‘

کانگریس ترجمان کے مطابق سی ڈبلیو سی میٹنگ میں این آر سی معاملہ پر بھی غور و خوض ہوا اور کہا گیا کہ این آر سی کے لیے جو عمل کانگریس حکومت میں شروع ہوا تھا بی جے پی حکومت نے اس پر عمل نہ کر کے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بدنظمی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ سرجے والا نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’’بی جے پی این آر سی کے عمل کو سماجی تانے بانے کو توڑنے کی سازش کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس کی بہت واضح وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں پر اس کے ذریعہ پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ سی ڈبلیو سی کارکنان نے مودی حکومت کی ان کوششوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے کے عزم کا اظہار میٹنگ کے دوران کیا۔‘‘ ساتھ ہی سرجے والا نے کہا کہ کانگریس ہر اس ہندوستانی کے ساتھ کھڑی ہے جو این آر سی کے فائل لسٹ میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں اور ان کے پاس ہندوستانی شہری ہونے کا کوئی نہ کوئی ثبوت موجود ہے۔ کانگریس مانتی ہے کہ ہر ہندوستانی شہری کو اپنی شہریت ثابت کرنے کا موقع ضرور ملنا چاہیے۔

رندیپ سنگھ سروجے والا کے مطابق رافیل طیارہ معاہدہ سے متعلق ایشو بھی سی ڈبلیو سی میں اٹھا اور ایک بار پھر اسے مودی حکومت کا ایک بہت بڑا گھوٹالہ قرار دیا گیا۔ اس تعلق سے پریس کانفرنس کے دوران کانگریس نے سوال اٹھایا کہ آخر کیوں اصل قیمت مودی حکومت بتانے سے پرہیز کر رہی ہے اور کیوں 526 کروڑ کے طیارہ کی قیمت 1670 کروڑ تک بڑھ جانے کی وجہ نہیں بتا رہی۔ رافیل طیارہ معاملہ میں ناتجربہ کار ایروناٹکس کے ساتھ معاہدہ کرنے پر بھی کانگریس نے سوال اٹھائے۔

کانگریس ترجمان کے مطابق ملک کی گرتی اقتصادیات اور بڑھتی بے روزگاری پر اظہارِ تشویش کیا گیا اور میٹنگ میں کہا گیا کہ جب وزیر اعظم ہی نوجوانوں کو پکوڑے اور پان بچینے کا مشورہ دینے لگے تو اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا ہو سکتا ہے۔ زراعت پر پیدا بحران اور کسانوں کو ’جملوں‘ کے ذریعہ بہلانے کی مودی حکومت کی کوششوں پر بھی سی ڈبلیو سی کارکنان نے تشویش ظاہر کی۔

پریس کانفرنس کے آخر میں جب ایک صحافی نے رندیپ سنگھ سرجے والا سے مظفر پور شیلٹر ہوم میں ہوئے شرمناک واقعہ سے متعلق ایک سوال پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’’اس واقعہ نے پورے ملک کو شرمسار کیا ہے اور اس جرم کے کلیدی ملزم کو جہاں ریاست کے اعزاز سے نوازے جانے کی تیاری تھی وہیں اس معاملہ پر کچھ کہنے کے لئے ریا ست کے وزیر اعلی کو22 دن لگے۔ اتن اہی نہیں ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے آج تک اس معاملہ پر نہ اظہار افسوس کیا ہے اور نہ ہی کوئی بیان دیا ہے۔‘‘ سرجے والا نے کہا کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت کے اس رویہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ’ جملہ بابو‘ اور ’سُشاسن بابو‘ اتنے حساس معاملے کو لے کر کتنے سنجیدہ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Aug 2018, 3:54 PM