بہار کے انتخابی میدان میں نوجوانوں کی آمد، تبدیلی کی نئی امید

بہار اسمبلی انتخابات میں کئی نوجوان امیدواروں کی موجودگی ایک نئی سیاسی ہوا کا اشارہ ہے۔ یہ نسل ذات پات سے آگے بڑھ کر تعلیم، روزگار اور سماجی انصاف کی سیاست کا نیا باب تحریر کرنے نکلی ہے

<div class="paragraphs"><p>مہاگٹھ بندھن کے ایک انتخابی جلسہ کا منظر / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

نندلال شرما

بہار گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی جمود اور سماجی پسماندگی کے ایک ایسے دائرے میں پھنسا ہوا ہے جہاں تبدیلی کی بات تو بہت ہوتی ہے، لیکن عملی طور پر کچھ بدلتا نہیں۔ چھوٹے موٹے وقفوں کے سوا، نتیش کمار تقریباً 20 برسوں سے اقتدار پر قابض ہیں۔ ’سوشاسن بابو‘ کے طور پر ان کی شناخت بنی، مگر انسانی ترقی کے اشارے خواندگی، زندگی کی اوسط مدت اور بچوں کی شرحِ اموات، آج بھی ریاست کی کمزور حالت کی گواہی دیتے ہیں۔

اس طویل جمود کے باوجود عوام کو اب تک بہتر سودے بازی یا حقیقی فلاح کا راستہ نہیں ملا۔ سماجی بیداری کے دعویدار سیاست داں کرسیوں سے چمٹے رہے اور عوام کے لیے یہ انتظار ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مگر اس بار، 6 اور 11 نومبر کی ووٹنگ میں بہار کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ ایسے نمائندے چنے جو صرف اسمبلی میں موجودگی درج کرانے کے بجائے، عوامی مفاد پر سنجیدگی سے کام کریں۔

یہ موقع اس لیے اہم ہے کہ اس بار انتخابی میدان میں کئی ایسے نوجوان امیدوار ہیں جن کی سوچ اور باتیں سیاست کے ایک نئے نظریے کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ یہ نسل اقتدار یا جاگیرداری کے بجائے عوامی خدمت، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی مسائل کو اپنا ایجنڈا بنا رہی ہے۔

کھیساری لال یادو: مقبولیت سے خدمت کی طرف

بھوج پوری فلموں کے معروف گلوکار و اداکار کھیساری لال یادو (39 سال) راشٹریہ جنتا دل کے ٹکٹ پر چھپرا سے امیدوار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدا میں پارٹی نے ان کی اہلیہ کو میدان میں اتارنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ان کا نام ووٹر لسٹ سے غائب ہونے کے بعد کھیساری کو اچانک ٹکٹ دیا گیا۔

کھیساری کے عوامی بیانات میں ایک بے ساختہ اعتماد جھلکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایک بار بہار بدلتے ہیں، حکومت بدلتے ہیں۔ اگر ہمارے بڑے بھائی تیجسوی یادو نے اچھا کام نہیں کیا، تو ہم انہیں بھی بدل دیں گے۔‘‘


کھیساری نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی۔ دودھ بیچنے سے لے کر محنت مزدوری تک کے تجربات نے انہیں عام لوگوں کی زندگی کے قریب رکھا۔ اپنے ناقدین کے جواب میں وہ طنزیہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’کیا میرے گانوں کی وجہ سے اسکول اور اسپتالوں کی یہ حالت ہے؟‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میں پیسہ نہیں، خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں اچھی زندگی گزار رہا ہوں۔ چاہتا ہوں آپ بھی بہتر زندگی گزاریں اور آپ کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں۔‘‘

دِویا گوتم: تعلیم یافتہ نظریے کی نمائندہ

پٹنہ کے دیگھا علاقے سے سی پی آئی-ایم ایل کی امیدوار دِویا گوتم (34 سال) سیاست میں تعلیم، عورتوں کے حقوق اور سماجی انصاف کی مضبوط آواز ہیں۔ ان کی سیاسی زندگی 2011 میں شروع ہوئی جب وہ پٹنہ ویمنز کالج میں ’آئیسا‘ (آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن) سے وابستہ ہوئیں۔

دیویا نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (ٹی آئی ایس ایس) حیدرآباد سے خواتین کے مطالعے میں ایم اے کیا، جھارکھنڈ میں دیہی ترقی پر کام کیا اور پھر تدریس سے وابستہ ہوئیں۔ اس وقت وہ بِٹس، پلانی میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں، ان کا تحقیقی موضوع ہے: ’بھوج پوری سینما میں مردانگی، ذات اور طبقے کا تصور۔‘‘

دِویا کا سوال دوٹوک ہے، ’’سیاسی جماعتیں خواتین کے لیے مناسب نمائندگی دینے سے پہلے ویمن ریزرویشن بل کے نافذ ہونے کا انتظار کیوں کریں؟‘‘

دھننجے: جدوجہد سے سیاست تک

سی پی آئی-ایم ایل کے ایک اور امیدوار 29 سالہ دھننجے، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پہلے دلت صدر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب آپ میری جیسی پس منظر سے آتے ہیں، تو سیاست ایک کیریئر نہیں، ذمہ داری بن جاتی ہے۔‘‘

انہوں نے اپنی سیاسی زندگی امبیڈکر یونیورسٹی دہلی سے بطور اسٹوڈنٹ کونسلر شروع کی اور بعد میں جے این یو میں ’آئیسا‘ کے سرگرم رکن بنے۔ ان کی سیاست ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی جدوجہد کی کہانی ہے۔

دھننجے مزدوروں کے حقوق کی تحریک سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ دہلی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ملازمین اور تمل ناڈو کی پرکول فیکٹری کے مزدوروں کے احتجاج میں ان کی شمولیت نمایاں رہی ہے۔ وہ اپنے تھیٹر اور اسٹڑیٹ ڈراموں کے ذریعے مزدوروں اور دلتوں کے مسائل اجاگر کرتے ہیں۔


نوین کمار: نئی نسل کی قیادت

کانگریس کے 24 سالہ نوین کمار سب سے کم عمر امیدوار ہیں۔ انہوں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور سیتا مڑھی کے بتھناہا (مخصوص) حلقے سے امیدوار ہیں۔ 2023 میں صرف 23 برس کی عمر میں وہ ضلع کونسل کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔

ان کی شکل و صورت معصومانہ ضرور ہے لیکن خیالات پختہ ہیں۔ وہ اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں جس پر گزشتہ تین انتخابات سے بی جے پی کا قبضہ رہا ہے۔ کانگریس انہیں اگلی نسل کی قیادت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔

شیو پرکاش غریب داس: وراثت سے جدوجہد تک

کانگریس نے بچھواڑہ سے 30 سالہ شیو پرکاش غریب داس کو میدان میں اتارا ہے، جہاں ان کا سی پی آئی سے ’دوستانہ مقابلہ‘ ہے۔ 2020 میں انہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ سیاست ان کے خون میں ہے، ان کے والد رام دیو رائے کانگریس کے سینئر لیڈر تھے جنہوں نے 1972 اور 1977 میں اسمبلی سیٹ جیتی اور 1984 میں لوک سبھا الیکشن میں کرپوری ٹھاکر کو شکست دی تھی۔

منڈل دور کے بعد کانگریس نے ریاست میں اپنی گرفت کھو دی تھی، جسے اب پارٹی دوبارہ حاصل کرنے کی امید کر رہی ہے۔ غریب داس کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے چند دن بعد پارٹی کے اسٹار تشہیرکار عمران پرتاپ گڑھی ان کی حمایت میں تشہیر کے لیے پہنچے اور خود کو راہل گاندھی کا پیغام رساں قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں غریب داس کی کامیابی یقینی بنانے کا کام سونپا گیا ہے۔

ششانت شیکھر: تعلیم یافتہ وژن

پٹنہ صاحب کا حلقہ طویل عرصے سے بی جے پی کا گڑھ رہا ہے مگر کانگریس نے یہاں 34 سالہ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم سے تعلیم یافتہ ششانت شیکھر کو امیدوار بنایا ہے۔ وہ تعلیم، روزگار اور علمی اداروں کی مضبوطی کو اپنا مرکزی موضوع بنا رہے ہیں۔

ششانت ہر وارڈ میں ’امبیڈکر نالج سینٹر‘ اور لائبریری قائم کرنے، نیز ڈگری کالجوں میں پوسٹ گریجویٹ کورس شروع کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جب تعلیم مضبوط ہوگی، تب سیاست خود بخود صاف شفاف ہوگی۔

ایک خاموش انقلاب کی دستک

ان سب نوجوان امیدواروں میں ایک بات مشترک ہے، موجودہ نظام سے بے اطمینانی اور تبدیلی کا جذبہ۔ ایک ایسی ریاست میں، جہاں پسماندگی اور ذات پات کی سیاست گہری جڑیں رکھتی ہے، یہ نوجوان امید کی نئی کرن ہیں۔ ان کے لیے جیت یا ہار ثانوی مسئلہ ہے، ان کی موجودگی ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ بہار میں سیاست کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے، ایسا باب جس میں ’تحفظ‘ نہیں بلکہ ’شراکت داری‘ اصل نظریہ ہے۔ یہی نوجوان، اپنی سوچ، علم اور عزم کے ساتھ، اس امید کو جنم دیتے ہیں کہ بہار کی سیاست اب صرف نعروں سے نہیں، بلکہ نئے نظریات سے بدلے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔