مظفر نگر: قرض سے پریشان ایک اور کسان نے اپنی زندگی ختم کر لی

علیم الدین جمعرات کی شام سے ہی لاپتہ تھا۔ 7 بیگھا زمین کے ساتھ 4 بچوں کی پرورش کرتے کرتے ٹوٹ چکے علیم الدین پر مقامی پنجاب نیشنل بینک سے کسان کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ حاصل قرض بوجھ بن گیا تھا۔

علامتی تصویر (سوشل میڈیا)
علامتی تصویر (سوشل میڈیا)
user

آس محمد کیف

اتر پردیش میں مظفر نگر ضلع واقع پربالیان گاؤں کے ایک کسان نے زہر پی کر خود کی زندگی ختم کر لی۔ 55 سالہ علیم الدین نامی اس کسان نے اپنی موت کے لیے اسی سات بیگھا زمین کو منتخب کیا جسے لگاتار بڑھتے قرض کے سبب اس سے محروم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ ہفتہ کی صبح علیم الدین کی لاش اس کے گنّے کی کھیت میں پڑی ہوئی ملی۔ پاس میں زہر کی شیشی بھی پڑی ہوئی تھی۔

علیم الدین جمعرات کی شام سے ہی لاپتہ تھا۔ اس کے غائب ہونے کی خبر کو علیم الدین کے بھائی نے مقامی منصور پور تھانہ کو دی تھی۔ 7 بیگھا زمین کے ساتھ چار بچوں کی پرورش کرنے میں ٹوٹ چکے علیم الدین پر مقامی پنجاب نیشنل بینک سے کسان کریڈٹ کارڈ کے ذریعہ حاصل قرض بوجھ بن گیا تھا۔


منصور پور کے ہی باشندہ کسان لیڈر راجو اہلاوت کے مطابق علیم الدین کی لاش اسی کی کھیت میں پڑی ہوئی ملی۔ جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ سچ تو یہ ہے کہ کسانوں کی حالت بہت تکلیف دہ ہو چکی ہے۔ ڈر تو اس بات کا ہے کہ خودکشی کرنے والوں کی تعداد نہ بڑھ جائے۔ خاص کر چھوٹے کسان قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں اور بینک پیسے کے لیے لگاتار دباؤ بنا رہے ہیں۔

پوربالیان کے سابق ضلع پنچایت رکن شاکر علی کا کہنا ہے کہ علیم الدین انہی کے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ سات بیگھا زمین سے گھر چلانا بے حد مشکل ہے۔ اس کے چار بچے ہیں اور دو بینکوں کا قرض بھی ہے۔ مجھے اس کے بھائی نے بتایا کہ بینک افسران اس سے لگاتار قرض کی رقم کا مطالبہ کر رہے تھے، جب کہ وہ قرض لوٹانے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ بہت زیادہ دباؤ کی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ہو گیا تھا۔ بینک کا قرض لوٹانے کے لیے اس نے کچھ عام لوگوں سے بھی مدد طلب کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بینک کی سختی سے وہ ٹوٹ گیا۔


انڈین کسان یونین لیڈر راجو اہلاوت کے مطابق علیم الدین جیسے کسان خودکشی کے لیے اس لیے مجبور ہوئے ہیں کیونکہ حکومت کا جھکاؤ کارپوریٹ کی طرف ہوتا ہے۔ وہ سبھی سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیتے ہیں۔ اس لیے ہزاروں کروڑ روپے کا ان کا قرض معاف ہو جاتا ہے، لیکن 50 ہزار کے قرض والا کسان خودکشی کر لیتا ہے۔

منصور پور تھانہ انچارج منوج چہل کا کہنا ہے کہ علیم الدین کی موت کی خبر ملنے کے فوراً بعد وہ کھیت پر پہنچے تھے جہاں سلفاس کی شیشی پڑی ہوئی ملی اور کسان کے منھ سے جھاگ بھی نکل رہا تھا۔ پہلی نظر میں معاملہ خودکشی کا ہی لگتا ہے۔ گھر والوں نے تھانہ میں دی گئی تحریر پر بھی یہی لکھا ہے۔ علیم الدین کے بھائی کے مطابق وہ قرض کو لے کر بہت زیادہ پریشان تھا۔ سات بیگھا زمین اس کی مدد نہیں کر پا رہی تھی۔ اس پر بینک اور سوسائٹی دونوں کے پیسے قرض ہو گئے تھے۔


اس سے قبل لاک ڈاؤن کے دوران کسان لیڈروں کے گڑھ سسولی میں بھی گنّے کا پیمنٹ نہ ملنے پر اوم پال نامی کسان کی خودکشی کی بات سامنے آئی تھی۔ یہ معاملہ سیاسی طور پر طول پکڑ گیا تھا۔ کھتولی کے ایس ڈی ایم اندرکانت دویدی کے مطابق مہلوک کسان پر کوئی قرض باقی نہیں تھا۔

مقامی کسان نریندر ملک کے مطابق اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کسان منظم ہوں، کیونکہ خودکشی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حکومت کسانوں کے فصل کی مناسب قیمت اور وقت سے ادائیگی کا انتظام نہیں کر پا رہی ہے، اس لیے غریب کسان قرض کے جال میں پھنستے جا رہے ہیں۔ آخر میں انھیں جب کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے تو خودکشی کر لیتے ہیں۔ سسولی گاؤں کے کسان کی موت کو ابھی لوگ بھولے بھی نہیں تھے کہ ایک اور خودکشی کا مایوس کن واقعہ پیش آ گیا جو افسوسناک ہے۔ کسانوں کو اب منظم ہونا ہی پڑے گا، سرکاری نظام کو خواب سے جگانا ہی ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Aug 2020, 10:00 PM