’ہریانہ پر 4 لاکھ کروڑ روپے سے زائد کا قرض‘، سابق وزیر اعلیٰ ہڈا نے کھٹر حکومت کو قرض پر وہائٹ پیپر لانے کا دیا چیلنج

بھوپندر ہڈا نے کہا کہ وہ آج بھی اپنی بات پر قائم ہیں، ریاست پر مجموعی قرض 4 لاکھ کروڑ سے زیادہ کا قرض ہے، کیونکہ حکومت نے خود 24-2023 کے بجٹ میں بتایا کہ ریاست پر 285885 کروڑ کا قرض ہے۔

بھوپندر ہڈا
بھوپندر ہڈا
user

دھیریندر اوستھی

ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر حکومت کے ریاست پر قرض کے اعداد و شمار کو غلط بتاتے ہوئے ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا نے ریاست کی اصلی تصویر پیش کی ہے۔ بی جے پی-جے جے پی حکومت کو بے نقاب کرتے ہوئے اپوزیشن پارٹی نے ریاست پر حقیقی قرض کو 4 لاکھ کروڑ روپے سے زائد بتایا ہے۔ ریاستی حکومت کے اعداد و شمار کے ساتھ ہی آر بی آئی اور سی اے جی کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ حکومت کس طرح گول مول بات کر رہی ہے۔ حکومت کے دعووں کو چیلنج پیش کرتے ہوئے ہڈا نے قرض پر وہائٹ پیپر لانے کا مطالبہ کیا ہے، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔

سابق وزیر اعلیٰ نے چنڈی گڑھ میں پیر کے روز کہا کہ 21-2020 میں حکومت نے بتایا کہ ریاست پر 227697 کروڑ روپے کا قرض ہے، جبکہ سی اے جی رپورٹ میں 279967 کروڑ قرض بتایا گیا اور آر بی آئی کے مطابق یہ قرض 262331 کروڑ تھا۔ اسی طرح 23-2022 میں حکومت نے ریاست پر 243701 کروڑ روپے کا قرض دکھایا، جبکہ آر بی آئی کے مطابق یہ قرض 287266 کروڑ روپے تھا۔ یعنی کہ سرکاری اعداد و شمار میں ہی 44513 کروڑ کا فرق دیکھنے کو ملا۔ اسی طرح جب سی اے جی کی رپورٹ آئے گی تو اس میں مزید فرق دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

بھوپندر سنگھ ہڈا نے کہا کہ وہ آج بھی اپنی بات پر قائم ہیں۔ ریاست پر داخلی قرض اور تمام دینداریاں ملا کر 4 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض ہے۔ کیونکہ حکومت نے خود 24-2023 کے بجٹ میں بتایا کہ ریاست پر 285885 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ سی اے جی کی رپورٹ میں پبلک اکاؤنٹ ڈپوزٹ، اسمال سیونگز، مارچ 2022 تک 36809 کروڑ روپے بتائی گئی، جوکہ ہر سال 3000 سے 4000 کروڑ روپے بڑھ جاتی ہے۔اس لیے یہ بڑھ کر 31 مارچ 2024 تک تقریباً 44000 کروڑ ہو جائے گی۔ اسی طرح ہریانہ حکومت کے مختلف محکموں کو 40193 کروڑ روپے بجلی بل اور اَن پیڈ سبسیڈی کا دینا ہے۔ یہ ملک میں تمام ریاستوں سے زیادہ قرض ہے۔ اسٹیٹ پبلک انٹرپرائزیز پر 47211 کروڑ روپے کا قرض ہے۔ یعنی ہریانہ پر تمام طرح کے قرض کو ملا کر مجموعی طور پر 423229 کروڑ روپے قرض بنتا ہے۔ اس لیے کانگریس بار بار حکومت سے وہائٹ پیپر کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس میں 31 مارچ 2023 تک ریاست پر مجموعی داخلی قرض، پبلک اکاؤنٹ ڈپازٹ (اسمال سیونگز)، پبلک انٹرپرائزیز کے ذریعہ لیا گیا قرض، ایڈیشنل لائبلٹیز (حکومت کے ذریعہ سبھی سروس پرووائیڈرس اور سپلایرس کو قابل ادا) کا ذکر ہو۔ ریاست پر قرض کے اعداد و شمار اس لیے بھی فکر انگیز ہے کیونکہ 15-2014 سے لے کر 23-2022 تک ریاست پر قرض کا بوجھ چار گنا تک بڑھ گیا ہے۔ جبکہ اس دوران ایس جی ڈی پی میں صرف 2.1 گنا کا ہی اضافہ ہوا ہے۔ یعنی قرض کی شرح ترقی ریاست کی معاشی شرح ترقی سے کہیں زیادہ ہے۔

بھوپندر ہڈا نے کہا کہ خود حکومت کے ذریعہ پیش کیے گئے اعداد و شمار میں بڑا تضاد ہے۔ مثال کے طور پر 21-2020 میں حکومت نے 155645 کروڑ روپے کا تخمینہ بجٹ پیش کیا۔ بعد میں اسے ترمیم کر کے 153384 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ حقیقی بجٹ کو مزید گھٹا کر 135909 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ اسی طرح 23-2022 میں تخمینہ بجٹ 177235 کروڑ روپے تھا، جو ترمیم ہو کر 164807 کروڑ روپے رہ گیا۔


ریاست کا سرکاری خسارہ بھی لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ 14-2013 میں یہ ایس جی ڈی پی کا 2.07 فیصد تھا، جو 23-2022 میں بڑھ کر 3.29 فیصد ہو گیا۔ حقیقی خرچ میں یہ بڑھ کر 3.35 فیصد تک ہو سکتا ہے۔ اسی طرح قرض اور جی ایس ڈی پی کا تناسب بھی فکر انگیز ہے۔ 14-2013 میں جو 15.1 فیصد تھا، وہ 23-2022 تک بڑھ کر 25.78 فیصد ہو گیا۔ اگر ترمیم شدہ ریاستی قرض، پبلک اکاؤنٹ ڈپازٹ (اسمال سیونگز) اور اسٹیٹ گارنٹیڈ قرض بھی جوڑ دیا جائے تو یہ بڑھ کر 32.47 فیصد ہو جاتا ہے۔

خود سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت کے پاس روزمرہ خرچ چلانے لائق بھی بجٹ نہیں ہے۔ کیونکہ 24-2023 کے بجٹ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کے پاس مجموعی طور پر 109122 کروڑ روپے کی آمدنی ہے۔ جبکہ خرچ 126071 کروڑ روپے ہے۔ یعنی 16949 کروڑ روپے کا ریوینیو ڈیفیسٹ ہے۔ داخلی قرض کی ادائیگی پر ہونے والا خرچ بھی لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ 24-2023 میں حکومت کے ذریعہ 64840 کروڑ روپے کا قرض تخمینہ ہے، جبکہ پہلے سے لیے گئے قرض اور اس کے سود کی ادائیگی پر 56470 کروڑ روپے (اصل 35220 کروڑ روپے + سود 21250 کروڑ روپے) خرچ ہونا ہے۔ یعنی حکومت کے پاس مجموعی قرض میں سے خرچ کے لیے محض 8370 کروڑ روپے ہی بچتے ہیں۔ بجٹ میں حکومت نے سرمایہ دارانہ لاگت کے اعداد و شمار بھی بڑھا چڑھا کر دکھائے ہیں۔ مثال کے طور پر 20-2019 میں سرمایہ دارانہ آمدنی 1778 کروڑ روپے دکھائی تھی، جبکہ حکومت کو صرف 54 کروڑ روپے ہی حاصل ہوئے۔ اسی طرح 21-2020 میں حکومت نے تخمینہ آمدنی 3750 کروڑ روپے دکھائی، لیکن حکومت کو صرف 63 کروڑ روپے ہی حاصل ہوئے۔ 22-2021 میں تخمینہ آمدنی 5000 کروڑ روپے دکھائی، لیکن حکومت کو 67.5 کروڑ روپے ہی حاصل ہوئے۔ حکومت نے 23-2022 میں 5394 کروڑ روپے اور 24-2023 میں 5200 کروڑ روپے کی تخمینہ آمدنی دکھائی ہے۔ لیکن گزشتہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مشکل سے 60-50 کروڑ ہی ہوگی۔ اس سے واضح ہے کہ حکومت کے پاس سرمایہ دارانہ ترقی کے لیے کوئی پیسہ نہیں ہے۔

ہڈا نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ حکومت 57879 کروڑ روپے، جو کہ مجموعی بجٹ کا 31.5 فیصد ہے، اسے سرمایہ دارانہ ملکیت پر خرچ کرے گی۔ جبکہ حکومت کے ہی مطابق قرض کی ادائیگی میں 35220 کروڑ اور قرض و ایڈوانز کی ادائیگی میں 4198 کروڑ روپے خرچ ہو جائیں گے۔ یعنی حکومت کے پاس صرف 18460 کروڑ روپیہ ہی سرمایہ دارانہ ملکیت تعمیر کے لیے بچے گا، جوکہ بجٹ کا محض 10 فیصد ہے۔ ایسے میں 31.5 فیصد کا دعویٰ صرف ہوا ہوائی ثابت ہوتا ہے۔

عوام کو ورغلانے کے لیے حکومت ہر بار بجٹ کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے جو بعد میں ترمیم ہونے کے بعد، اور پھر حقیقی بجٹ میں گھٹ جاتا ہے۔ مثلا کے طور پر 23-2022 میں حکومت نے 177256 کروڑ روپے کا تخمینہ بجٹ پیش کیا، جسے بعد میں ترمیم کر کے 164807 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ حقیقی اعداد و شمار آتے آتے یہ مزید کم ہو جائے گا۔ لیکن حکومت ہر بار قرض کے اعداد و شمار کو کمتر دکھانے کی کوشش کرتی ہے۔ 23-2022 میں حکومت نے داخلی قرض 243779 کروڑ روپے دکھایا تھا، جو ترمیم شدہ بجٹ میں بڑھ کر 256265 کروڑ روپے ہو گیا، یعنی اس میں 12486 کروڑ روپے کا اضافہ ہو گیا۔ اس طرح بجٹ 24932 کروڑ روپے زیادہ دکھایا گیا، جو کہ 14 فیصد ہے۔


حکومت کے ذریعہ ہر بار تقریباً 18-15 فیصد انفلیٹیڈ بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ 16-2015 میں پیش کیا گیا حقیقی بجٹ تخمینہ بجٹ کا 85 فیصد تھا۔ 17-2016 کا حقیقی بجٹ تخمینہ کا صرف 83 فیصد، 18-2017 کا صرف 82 فیصد، 19-2018 کا 86 فیصد، 20-2019 کا 83 فیصد، 21-2020 کا 81.4 فیصد اور 22-2021 کا 86.63 فیصد ہی تھا۔

ہڈا نے کہا کہ گورنر نے اپنی تقریر میں بتایا کہ 23-2022 میں جی ایس ٹی حصولی میں 26.53 فیصد اور ایکسائز میں 22.47 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے برعکس بجٹ میں ٹیکس سے آمدنی کو ترمیم کر کے 82653 کروڑ سے گھٹا کر 75714 کروڑ روپے کر دیا گیا۔ ایسے میں یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے تو جی ایس ڈی پی کے تناسب میں ٹیکس کی حصولی میں ہیرا پھیری ہو رہی ہے یا حکومت کے ذریعہ دیے گئے جی ڈی پی کے اعداد و شمار میں گڑبڑی ہے۔

ہڈا نے کھٹر حکومت کے تئیں فی کس آمدنی کو لے کر کیے جا رہے دعووں کو بھی ہوا ہوائی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے فی کس آمدنی 296685 روپے بتائی ہے۔ اس حساب سے فی کنبہ سالانہ آمدنی 1483425 روپے بنتی ہے۔ ریاست کے 30 لاکھ ایسے کنبے ہیں جو سیدھے طور پر زراعت پر منحصر ہیں۔ این ایس ایس او کی رپورٹ بتاتی ہے کہ کسان کنبوں کی مجموعی آمدنی 22841 روپے ماہانہ یعنی 275000 روپے سالانہ سے زیادہ نہیں ہے۔ وہیں دوسری طرف حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ ریاست میں 30 لاکھ کنبے (جن کی آمدنی 2.50 لاکھ روپے سے کم ہے) آیوشمان یوجنا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں 296685 روپے فی کس آمدنی کا دعویٰ زمین پر درست نہیں بیٹھتا۔ اگر حکومت حقیقی آمدنی کے اعداد و شمار جاننا چاہتی ہے تو اسے ضلع وار فی کس آمدنی کی تفصیل حاصل کرنی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔