مودی حکومت غریب اور ضرورت مندوں کے تئیں پوری طرح لاپروا، پہلے بجٹ میں کٹوتی کی اور پھر خرچ میں بھی سستی

اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ مالی سال 23-2022 میں مودی حکومت میں غریب اور ضرورت مندوں سے جڑے منصوبوں کے لیے الاٹ بجٹ میں سے 9 ماہ یا 10.5 ماہ میں بہت کم خرچ ہوا، جو موضوعِ فکر ہے۔

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس 
علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
user

بھرت ڈوگرا

سماجی انصاف اور امپاورمنٹ محکمہ کی بیشتر ذمہ داریاں غریبوں اور ضرورت مند طبقات سے جڑی ہیں۔ اس محکمہ کو مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں 11922 کروڑ روپے کا بجٹ حاصل ہوا تھا، لیکن 15 فروری 2023 تک (یعنی مالی سال کے 12 ماہ میں سے 10.5 ماہ گزر جانے پر) اس میں محض 3488 کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے۔ یعنی محض 29 فیصد ہی خرچ ہوئے۔

غلاظت ڈھونے کے کام میں لگے ملازمین کے لیے 70 کروڑ روپے کا انتظام تھا لیکن مالی سال 23-2022 کے پہلے 9 ماہ میں محض 5 کروڑ روپے ہی خرچ کیے گئے۔ مختلف شہری حقوق کی حفاظت اور دلت مظالم کو روکنے کے لیے اس مالی سال میں 600 کروڑ روپے کا انتظام تھا، لیکن پہلے 9 ماہ میں محض 75 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ گھومنتو اور ڈینوٹیفائیڈ طبقات کے لیے 28 کروڑ روپے کا بجٹ تھا، لیکن 9 ماہ میں محض 2 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔


درج فہرست ذاتوں کی پری-میٹرک کے اسکالرشپ کے لیے 23-2022 کے بجٹ میں 500 کروڑ روپے کا انتظام تھا، لیکن پہلے 9 ماہ میں محض 56 لاکھ روپے ہی خرچ ہوئے، یعنی اعلان کردہ بجٹ کا محض 0.1 فیصد ہی خرچ ہوا۔ اسی طرح درج فہرست ذاتوں کی ’وِشواس‘ اسکیم کے لیے آٹھ کروڑ کا بجٹ 23-2022 میں الاٹ ہوا تھا، لیکن پہلے 9 ماہ میں اس پر حقیقی خرچ صفر ہی رہا۔

پردھان منتری اجئے اسکیم کو درج فہرست ذات کے لیے سالانہ ترقی میں ایک اہم اسکیم تصور کی گئی ہے۔ اس کے لیے 23-2022 کے بجٹ میں 1950 کروڑ روپے کا انتظام تھا، لیکن پہلے 9 ماہ میں یا 31 دسمبر 2022 تک محض 29 کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے تھے۔ یعنی اس اسکیم کا محض 2 فیصد بجٹ ہی پہلے 9 ماہ میں خرچ ہوا۔


اقلیتی امور کی وزارت کو 23-2022 میں 5020 کروڑ روپے کا بجٹ حاصل ہوا تھا، لیکن پہلے 10.5 ماہ کے دوران حقیقی خرچ محض 668 کروڑ روپے ہوا۔ یعنی مجموعی بجٹ کا محض 13 فیصد ہی 10.5 ماہ گزر جانے تک خرچ ہوا۔ اسی طرح اگر ہم محنت و روزگار وزارت کے کچھ مزدور فلاحی منصوبوں کو دیکھیں تو الاٹ رقم کے مقابلے ان پر بہت کم خرچ ہوا۔

یہ مختلف اعداد و شمار مختلف پارلیمانی کمیٹیوں کی رپورٹ میں کہیں 9 ماہ یا 10.5 ماہ کے لیے دستیاب ہوئے ہیں، جبکہ مالی سال کے پورے 12 مہینے کے اعداد و شمار تو بعد میں دستیاب ہوں گے۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ بچے ہوئے وقت میں خرچ کو بہت بڑھا دیا گیا تو بھی یہ نامناسب ہی مانا جائے گا کہ پہلے 9 سے 10.5 ماہ تک ضرورت مندوں کی بھلائی سے جڑے کاموں کے لیے اتنا کم خرچ ہوا۔


پھر آخری ماہ میں ہی جلد بازی میں سارا خرچ کیا جائے گا تو کیا اچھے نتائج حاصل ہو سکیں گے! اگر بیشتر خرچ مالی سال کے کچھ آخری ہفتوں میں کیا جاتا ہے تو اس جلد بازی میں نگرانی ٹھیک سے نہیں ہو پاتی ہے اور بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ بجٹ کو ٹھیک سے خرچ کیا جائے اور پورے سال کے خرچ میں وقت کے مطابق توازن بنا کر رکھا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔