اراولی پہاڑی کے خلاف مودی حکومت کے قدم کو مزاحمت کا سامنا، کانگریس نے کہا ’اب خاموش رہنا ٹھیک نہیں‘
اراولی پہاڑی کی نئی تعریف کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نئی تعریف کے خلاف داخل عرضی کو منظور بھی کر لیا ہے۔

اراولی پہاڑی کی نئی تعریف نے مودی حکومت کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی کر دی ہے۔ ماحولیاتی کارکنان اس کے خلاف زوردار انداز میں آواز اٹھا رہے ہیں اور کانگریس نے بھی اس تعلق سے اپنی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ بلکہ کانگریس نے اراولی پہاڑی سلسلہ کو بچانے کی ایک زوردار مہم بھی شروع کر دی ہے۔ یعنی اراولی معاملہ میں سماجی و سیاسی دونوں سطح پر مودی حکومت کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کانگریس اپنے ’ایکس‘ ہینڈل پر روزانہ کچھ نہ کچھ پوسٹ ڈال رہی ہے، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کو اڈانی کے حق میں کام کرنے کے لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آج ایک پوسٹ میں کانگریس کارٹون پیش ہے جس میں پہاڑی پر پی ایم مودی اور گوتم اڈانی کو ایک ساتھ بیٹھ کر ہنستے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ کارٹون کے نیچے کچھ لوگ اراولی پہاڑی سلسلہ کو بچانے کی کوشش میں ’اراولی پہاڑی کو بچاؤ‘، ’ہماری وراثت کی حفاظت کرو‘، ’کانکنی بند کرو‘ جیسے نعرے لکھے بورڈ ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔ اس پوسٹ کے ساتھ نے کیپشن لگایا ہے ’انھیں فرق نہیں پڑتا‘۔
کانگریس نے مرکزی وزیر ماحولیات کے اس بیان کی حقیقت بھی سامنے رکھ دی ہے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’میرا یہ بیان لکھ لیجیے مکمل اراولی کے 2 فیصد میں ہی کانکنی ہو سکتی ہے۔‘‘ اس بیان کی ویڈیو پیش کرنے کے بعد کانگریس نے ’للن ٹاپ‘ کی ایک رپورٹ کا چھوٹا سا کلپ چلایا ہے۔ اس کلپ میں بتایا گیا ہے کہ ’’راجستھان میں 20 میٹر سے زیادہ اونچائی والی 12081 پہاڑیاں ہیں جن میں سے صرف 1048 پہاڑیاں ہی 100 میٹر سے زیادہ اونچی ہیں۔ یعنی صرف 7.8 فیصد۔ اس کا مطلب یہ نکلا کہ نئے پیمانوں کے نافذ ہونے پر اراولی کی 90 فیصد سے زیادہ پہاڑیاں تحفظ کے درجہ سے محروم ہو سکتی ہیں۔‘‘ اس طرح کانگریس نے وزیر ماحولیات کے بیان کو گمراہ کرنے والا ثابت کر دیا ہے۔
کانگریس نے اراولی کی حفاظت کے لیے شروع کی گئی مہم کو رفتار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ’ایکس‘ ہینڈل پر جاری ایک پوسٹ میں ’اراولی ستیاگرہ‘ سے متعلق جانکاری دی گئی ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ماحولیات کے تحفظ میں اپنی شراکت داری سے پیچھے نہ ہٹیں۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ ’’یہ ہمارے مستقبل کی بات ہے، اب خاموش رہنا ٹھیک نہیں۔‘‘ اس ستیاگرہ سے جڑنے کے لیے کیو آر کوڈ بھی دیا گیا ہے تاکہ بہ آسانی آن لائن پٹیشن پر دستخط کیا جا سکے۔ ساتھ ہی گزارش کی گئی ہے کہ سرٹیفکیٹ ڈاؤنلوڈ کر اسے شیئر کریں۔ کانگریس نے اس پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’اراولی کی پہاڑیاں پانی، جنگل، صاف ہوا کے ساتھ ہی ہماری ثقافتی وراثت کی علامت ہیں۔ ہمیں ہر قیمت پر ان کی حفاظت کرنی ہوگی۔ ہمارے ساتھ آئیے، اراولی ستیاگرہ سے جڑیے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ اراولی پہاڑی کی نئی تعریف کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نئی تعریف کے خلاف داخل عرضی کو منظور بھی کر لیا ہے۔ یہ عرضی ہریانہ کے ریٹائرڈ فوریسٹ افسر آر پی بلوان نے داخل کی ہے۔ عدالت نے گزشتہ 17 دسمبر کو اپنے حکم میں مرکزی حکومت، ہریانہ و راجستھان حکومتوں اور وزارت ماحولیات سے اس عرضی پر جواب طلب کیا ہے۔
یہ معاملہ پرانے ٹی این گوداورمن تھرومولپاد بنام یونین آف انڈیا کیس سے جڑا ہے، جس میں 1996 میں سپریم کورٹ نے ’جنگل‘ کی وسیع تعریف پیش کی تھی۔ نومبر 2025 میں عدالت نے وزارت ماحولیات کی کمیٹی کی سفارش کو مانتے ہوئے اراولی پہاڑیوں کی یکساں تعریف طے کی تھی۔ اس کے تحت مقامی سطح سے 100 میٹر یا اس سے زیادہ اونچی پہاڑیاں ہی اراولی مانی جائیں گی۔ ساتھ ہی ان کی ڈھلان اور آس پاس کی زمین بھی اسی دائرے میں آئیں گی۔ لیکن عرضی دہندہ کا کہنا ہے کہ اس سے 100 میٹر سے کم اونچی پہاڑیاں حفاظت کے دائرے سے باہر ہو جائیں گی، جس سے ماحولیات کو بڑا نقصان ہوگا۔
آر پی بلوان کا کہنا ہے کہ اراولی پہاڑی سلسلہ گجرات سے دہلی تک پھیلا ہوا ہے اور تھار ریگستان کو روکنے والی دیوار کی طرح کام کرتا ہے۔ 100 میٹر کا اصول اختیار کرنے سے اس کی بڑی حصہ داری قانونی حفاظت سے محروم ہو جائے گی۔ انھوں نے وزارت ماحولیات کے حلف نامہ میں تضاد کا معاملہ بھی اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ یہ صرف تکنیکی معاملہ نہیں بلکہ راجستھان، ہریانہ، دہلی اور پورے شمال مغربی ہندوستان کے ماحولیات پر اثر ڈالے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔