ایم سی ڈی انتخاب: سیلم پور اسمبلی حلقہ میں کانگریس اور عآپ کے درمیان زبردست مقابلہ

سیلم پور اسمبلی حلقہ میں چار وارڈ ہیں– سیلم پور، چوہان بانگر، موجپور اور گوتم پوری۔ سیلم پور وارڈ 225 کی بات کریں تو یہاں کل ووٹ 46000 ہے جس میں 11000 ہندو اور 35000 مسلم ووٹ ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

محمد تسلیم

نئی دہلی: دہلی میونسپل کارپوریشن الیکشن کا اعلان ہوتے ہی راجدھانی دہلی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اُمیدوار چناوی میدان میں اتر چکے ہیں اور الیکشن کی سرگرمیاں اپنے شباب پر ہیں۔ یوں تو انتخاب میں اصل مقابلہ کانگریس، بی جے پی اور عآپ امیدواروں کے درمیان ہے، لیکن کچھ سیٹیں ایسی ہیں جہاں کانگریس کا عآپ سے براہ راست مقابلہ ہے۔ ایسی سیٹوں میں سے ایک سیلم پور اسمبلی حلقہ کی سیٹ بھی ہے جہاں کانگریس اور عآپ کے درمیان زبر دست مقابلے کی امید ہے۔ 2020 میں ہوئے دہلی فسادات کے زخموں کو شمال مشرقی دہلی کے مسلمان آسانی سے نہیں بھولنے والے۔ مسلمانوں کے ساتھ عآپ پارٹی کا رویہ اور وزیر اعلی اروند کیجریوال کی مسلم ایشوز پر مسلسل خاموشی سے جمنا پار کے مسلمانوں میں ناراضگی دیکھی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کانگریس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ سیلم پور اسمبلی حلقہ میں چار وارڈ ہیں– سیلم پور، چوہان بانگر، موجپور اور گوتم پوری۔ سیلم پور وارڈ 225 کی بات کریں تو یہاں کل ووٹ 46000 ہے جس میں 11000 ہندو اور 35000 مسلم ووٹ ہے۔ اس وارڈ سے عآپ امیدوار نسیم بانو، کانگریس اُمیدوار ممتاز بیگم، بی جے پی اُمیدوار سیما شرما، ایم آئی ایم امیدوار حجن شبنم رئیس، اور بطور آزاد امیدوار سابق کونسلر حجن شکیلہ افضال میدان میں ہیں۔ حجن شکیلہ سیلم پور وارڈ کی سابق کونسلر ہیں اور اس مرتبہ عآپ پارٹی نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا ہے، لیکن حجن شکیلہ کے شوہر حاجی افضال سیلم پور میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں اور وارڈ میں ان کی اچھی پکڑ ہے۔ ان کے مقابلے میں ریاض الدین راجو کی اہلیہ ممتاز بیگم کھڑی ہوئی ہیں۔ ریاض الدین راجو سیلم پور کا ایک بڑا نام ہے جو ہمیشہ عوام کے درمیان رہ کر لوگوں کی خدمت کر تے آ رہے ہیں۔ سیلم پور وارڈ میں حجن شکیلہ افضال اور ممتاز بیگم کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔


چوہان ہانگر وارڈ 227 پر پوری دہلی کے لوگوں کی نگاہیں مرکوز ہیں۔ ایسا اس لیے کیونکہ یہاں عآپ ایم ایل اے عبدالرحمن کی اہلیہ اور سابق کونسلر عاصمہ رحمن کو عآپ نے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ تاہم بی جے پی سے صبا غازی اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔ چوہان بانگر مسلم اکثریتی وارڈ ہے جہاں کل ووٹ 45000 ہے اور صرف 190 ووٹرس ہندو ہیں۔ عاصمہ رحمن کے سامنے کانگریس کے قدآور لیڈر چودھری متین احمد کی بہو اور بابر پور ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر چودھری زبیر احمد کی اہلیہ کانگریس اُمیدوار شگفتہ چودھری میدان میں ہیں۔ چوہان بانگر ضمنی الیکشن 2021 پر نظر ڈالیں تو سابق رکن اسمبلی حاجی اشراق خان اور چودھری زبیر احمد کے درمیان دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملا تھا۔ حاجی اشراق خان، جنہیں 21968 ووٹوں میں سے صرف 5561 ووٹ ہی حاصل ہو سکے، جبکہ چودھری زبیر احمد کو 16203 ووٹ حاصل ہوئے۔ اس طرح حاجی اشراق خان کو 10642 ووٹوں سے شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ زبیر احمد کو لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے صرف ایک سال کا وقت ملا لیکن انہوں ایک سال میں وارڈ کے عوام کا دل جیت لیا اور سبھی وعدے وقت سے پہلے پورے کئے۔ 2022 کے الیکشن میں عاصمہ رحمن کے سر پر کانٹوں بھرا تاج ہے۔ اگر اس مرتبہ وہ کامیاب نہیں ہو پائیں تو عآپ کے ہاتھوں سے سیلم پور اسمبلی حلقہ کا ایک اہم وارڈ ہاتھ سے نکل جائے گا۔

گوتم پور وارڈ 226 سے عآپ امیدوار انل جین، کانگریس سے ریاست ساحل، اور بی جے پی سے ستیہ شرما چناوی میدان میں ہیں۔ اس وارڈ میں کل ووٹ 51000 ہیں جس میں 42 فیصد ووٹ مسلم ہے۔ 2017 کے ایم سی ڈی الیکشن میں بی جے پی کے اُمیدوارکے کے اگرال نے گوتم پوری میں کمل کھلایا تھا لیکن اس مرتبہ ستیہ شرما کو بی جے پی نے ٹکٹ دیا ہے۔ اس وارڈ میں اس مرتبہ سہ رخی مقابلہ ہے۔ کانگریس کے ریاست ساحل اور عآپ کے انل جین اور بی جے پی سے ستیہ شرما تینوں ہی اُمیدوار اپنے اپنے طور پر مضبوط ہیں۔ فی الحال یہ کہہ پانا مشکل ہے کہ کس کا پلڑا بھاری ہے۔ اونٹ کس کر وٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔


موج پور وارڈ 228 پر روشنی ڈالیں تو حد بندی کے بعد اس وارڈ کا مسلم ووٹ زیادہ تر چوہان بانگر وارڈ میں چلا گیا ہے۔ اس وارڈ کا کل ووٹ 51000 ہزار ہے اور مسلم ووٹ صرف 16000 رہ گیا ہے۔ یہاں سے عآپ امیدوار نیرج کوشک، کانگریس سے ونود شرما، بی جے پی سے انل گوڑ، اور بطور آزاد امیدوار ابرار احمد اپنی قسمت آزمانے میدان میں اترے ہیں۔ موجپور وارڈ میں بی جے پی اور کانگریس کے اُمیدواروں کے مابین مقابلہ دیکھنے کو ملے گا، وہ اس لئے کہ انل گوڑ پہلے بھی الیکشن لڑ چکے ہیں اور ونود شرما پرانے کانگریسی ہیں۔ موجپور وارڈ سے جو مسلم کانگریس سے ٹکٹ کی دعویداری پیش کر رہے تھے۔ انہوں نے بغاوت نہ کرتے ہوئے ونود شرما کو حمایت دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ بہرکیف 4 دسمبر کو ووٹنگ ہونی ہے اور 7 دسمبر کو نتائج برآمد ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔