اللہ خیر کرے! حکومت نے مزید کھول دیئے پولیس کے ہاتھ… نواب علی اختر

’مذموم ارادے‘ سے لائے گئے بل میں سیاسی عینک کا زیادہ ہی عمل دخل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کے دلائل پر یقین نہیں ہو رہا ہے۔

امت شاہ
امت شاہ
user

نواب علی اختر

حزب اختلاف کی سخت مخالفت کے باوجود جرائم پیشہ کی شناخت سے متعلق کریمنل پروسیجر (شناخت) بل 2022 پارلیمنٹ میں پاس کر دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ نے حزب اختلاف کے اعتراضاف کو خارج کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس بل کا ممکنہ غلط استعمال روکنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا لیکن بل کے ڈرافٹ اور اس میں جس طرح کے التزامات کئے گئے ہیں ان پرسوال اٹھنے لازمی ہیں۔ در اصل موجودہ وقت میں پولیس اور مرکزی جانچ ایجنسیوں کے طریقہ کار اور خالص طور پر مخالفین کو نشانہ بنائے جانے کے لیے مرکز کی بی جے پی حکومت کی نیت پر شک کیا جا رہا ہے۔ اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت جس طرح ای ڈی، این آئی اے اور سی بی آئی کا ’استعمال‘ کر رہی ہے اسی طرح جرائم کے معاملے میں بھی نئے قانون میں پولیس کے ذریعہ مخالفین کو نشانہ بناہا جائے گا۔

یہ قانون 1920 میں بنائے گئے (قیدیوں کی شناخت) قانون کی جگہ نافذ کیا جانا ہے وہ یقیناً پرانا پڑچکا ہے۔ اس کے تحت گرفتارافراد کے صرف انگلی اور پنجوں کے نشانات ہی لیے جاسکتے ہیں۔ اس دوران ہوئی تکنیکی ترقی کے مطابق پولیس کے طور طریقوں میں تبدیلیاں ضرور آئی ہیں۔ پولیس اس قدر ’ہائی ٹیک‘ ہو چکی ہے کہ حملے کے بارے میں سوچنے (منصوبہ بنانے) والے کو وقت سے پہلے گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ حکمرانوں سے قربت اور مضبوط سیاسی گرفت والے گناہگاروں تک پہنچنے میں پولیس کو کئی کئی ماہ لگ جاتے ہیں اور وہ تبھی گرفتار ہوتے ہیں جب حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ عوام کا دباؤ پڑتا ہے۔ لکھیم پور کھیری میں احتجاجی کسانوں کو گاڑی سے کچلنے والے مرکزی وزیر مملکت کا بیٹا اس کا ثبوت ہے۔


دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی جانچ ایجنسیاں بایومیٹرکس کا استعمال کرتی ہیں۔ ان سے جرائم کے خلاف لڑائی میں مدد بھی ملتی ہے لیکن کریمنل پروسیجر (شناخت) بل 2022 کا خاکہ کچھ ایسا بنایا گیا ہے کہ اسے اس واضح مقصد تک محدود رکھنا مشکل لگتا ہے۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جب کسی بھی مخالف آواز کو دبانے کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرلیا جاتا ہے۔ اس بل میں پولیس کے ہاتھ کافی کھول دیئے گئے ہیں۔ 7 سال سے زیادہ سزا والے الزامات میں گرفتار سبھی لوگ اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ خواہ ان کے خلاف الزامات ثابت ہوں یا نہ ہوں، چاہے وہ شک کی بنیاد پر یا احتیاطاً ہی کیوں نہ حراست میں لیے گئے ہوں۔ موجودہ حالات میں ایسے لوگوں کو کبھی بھی پولیس ہتھکڑی پہنا سکتی ہے۔

اگر صحیح سے دیکھا جائے تو جو لوگ 7 سال سے کم قابل سزا معاملوں میں گرفتار کئے گئے ہوں، وہ سیمپل دینے سے انکار کرسکتے ہیں، لیکن ہماری پولیس کی جو شبیہ ہے اس میں تھانے میں لایا گیا کوئی عام آدمی پولیس کے احکامات ماننے سے کیا انکار کر پائے گا، یہ سوچنا بھی مشکل ہے۔ بل میں اس مشکل کا آسان حل یہ ہوسکتا تھا کہ مجسٹریٹ کی اجازت سے بایو میٹرک سیمپل لینے کا انتظام کر دیا جاتا مگر ایسی ضرورت بل تیار کرتے وقت نہیں کی گئی۔ یہی نہیں بل میں جمع کئے گئے ڈیٹا کے غلط استعمال یا انہیں غیر قانونی طور پر افشا کئے جانے کے اندیشے کو دور کرنے کا بھی کو انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ’میجرمنٹ‘ (پیمائش) کی مناسب تعریف کے فقدان میں یہ ڈر بھی موجود ہے کہ سی آر پی سی کی دفعہ 53 اور 53 اے کے سہارے طبی ماہرین کی صلاح پر نارکو اینالیسس اور چہرے کی شناخت جیسی ان کاروائیوں کے لیے بھی گنجائش نکال لی جائے گی جو بہتر قانونی طور طریقوں کے زمروں میں نہیں آتی ہیں۔


یہ بل بہت سے اگر مگرمیں گھرا ہوا ہے۔ اس کے باوجود اسے راجیہ سبھا میں بھی پاس کر دیا گیا۔ حالانکہ اس بل سے متعلق ہر پہلو پر باریکی سے غور کرکے اس کی خامیوں کو دور کیا جانا چاہئے تھا مگر یہاں بھی حزب اختلاف کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو مخالفت کی اس کی عادت مان کر خارج کر دیا گیا جو مناسب نہیں ہے۔ راجیہ سبھا میں ترنمول کانگریس کے سکھیندوشیکھر رائے نے بل کی دفعات کو عوامی مفادات اور لوگوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کی تجویز پیش کی تھی لیکن ان کی تجویز کو بے معنی قرار دیتے ہوئے اس پر ووٹوں کی تقسیم نہیں کی گئی۔ وہیں وزیر داخلہ امت شاہ نے اس بل پر ڈھائی گھنٹے سے زیادہ کی بحث کا جواب دیا مگر وہ حزب اختلاف کو مطمئن نہیں کرپائے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس بل میں کسی بھی طرح سے آئین کی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے۔ اس بل کا مقصد تھرڈ ڈگری کے بجائے سائنسی شواہد کی بنیاد پر عدالتوں میں سزا سنانے کی شرح کو بڑھانا ہے۔ حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس بل سے کسی بھی طرح کی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ اس بل کے حوالے سے سب سے زیادہ ڈیٹا کے افشا ہونے کا خدشہ ہے اسی طرح بل کی دفعات کے غلط استعمال سے بھی انکار کرنا مشکل ہے۔ سیاسی کارکنوں کے معاملے میں اس قانون کا زیادہ ہی غلط استعمال ہونے کی بات کہی جا رہی ہے۔ ’مذموم ارادے‘ سے لائے گئے اس بل میں سیاسی عینک کا زیادہ ہی عمل دخل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کے دلائل پر یقین نہیں ہے۔


موجودہ وقت میں ٹیکنالوجی نے خواہ کتنی ترقی کرلی ہو مگر ہندوستان کی پولیس اپنے دقیانوسی طور طریقوں میں ہی خوش ہے اور نئے طریقے اپنانے سے بھی گریزاں ہے کیونکہ اگرایسا ہوجاتا ہے تو اس کی کارکردگی سب کے سامنے آجائے گی اور پھر پولیس پر لوگوں کا جو تھوڑا بہت بھروسہ ہے وہ بھی اٹھ جائے گا۔ پولیس کے موجودہ رویئے کو دیکھتے ہوئے اسے تربیت دیئے جانے کی اشد ضرورت ہے۔ نئے بل میں مجرموں کی شناخت اور فوجداری مقدمات کی تفتیش اور جرائم سے متعلق مقدمات کا ریکارڈ رکھنے کا بندوبست کیا گیا ہے ۔ یہ انگلیوں کے نشانات، ہاتھوں کے نقوش، پنجوں کے نشانات، تصاویر اور حیاتیاتی نمونوں اور افراد کی شناخت کے لیے ان کے تجزیہ جیسے اقدامات کی قانونی منظوری فراہم کرتا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے جرائم کی تفتیش زیادہ موثر اور تیزی سے ممکن ہو سکے گی۔

حال ہی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ریاستی پولیس کے ساتھ ساتھ مرکزی سی بی آئی پر عوام کا اعتماد کم ہوا ہے۔ جسٹس رمنا کی تقریر کے لب لباب پرغور کیا جائے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افسران رول بک کے بجائے سیاستدانوں کے اشارے پر کام کرتے ہیں۔ جمہوری انتظامیہ میں قانون کے ذریعہ قائم ہندوستانی آئین کو نافذ کرنا اور جرائم کی روک تھام اور معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنے کی اہم ذمہ داری پولیس کی ہوتی ہے لیکن اکثر اوقات ان ذمہ داریوں کو درکنار کرتے ہوئے پولیس اہلکار اپنے فرائض میں غفلت اور غیر انسانی حرکتوں سے پورے پولیس نظام پر بدنما داغ لگا رہے ہیں۔ قانون اور نظم ونسق کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب محکمہ پولیس کا ہر فرد اپنے فرائض اور حقوق پر سنجیدہ ہوکر مناسب طور پر انہیں انجام دے۔


موجودہ دور میں فرضی مڈبھیڑ کے واقعات، جرائم پیشہ افراد کے ساتھ پولیس کی ساز باز اور بے قصور لوگوں کو بلا وجہ ہراساں کرنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے عوام میں پولیس کی شبیہ مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ پولیس کی زیادتیاں کسی ایک علاقے تک محدود نہ رہ کر ملک گیر ہو چکی ہیں۔ قانون کے محافظ پولیس اہلکاروں کے اس طرح کے طرز عمل سے پورے پولیس نظام کی شبیہ خراب ہوئی ہے۔ پولیس کے نظام کو آج نئی سمت، نئی سوچ اور نئی جہت کی ضرورت ہے۔ لہٰذا حکومت کو ملک کی پولیس کا عام شہریوں کے تئیں استحصالی اور بدعنوان رویئے کو تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کرنا چاہئے۔ پولیس کو شہری آزادیوں اور انسانی حقوق سے آگاہ کیا جانا چاہئے اور شفافیت کے ساتھ سماج کے سامنے حساس اور جوابدہ بنایا جانا چاہئے جس سے پولیس کی شبیہ بہتر ہوسکے اور عوام اس پر بھروسہ کرسکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔