مولانا کلب صادق، احمد پٹیل اور ترون گگوئی کے انتقال پر مولانا بدرالدین اجمل کا اظہارِ تعزیت

مولانا بدرالدین اجمل نے جاری بیان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق کے انتقال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے داعی اور مخلص رہنما تھے۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

نئی دہلی/ممبئی: آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے کانگریس کے دو قد آور اور سینئر رہنما احمد پٹیل اور ترون گگوئی کے انتقال پر اپنے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنا ذاتی نقصان قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے جاری بیان میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق کے انتقال پر اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے داعی اور مخلص رہنما تھے۔

مولانا اجمل نے کہا کہ احمد بھائی کانگریس کے صرف روایتی سینئر لیڈر نہیں تھے بلکہ وہ پارٹی کو پریشان کن مراحل سے نکالنے اور اس کو کامیابی دلانے میں مہارت رکھتے تھے، اسی لئے وہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے انتہائی قابل اعتماد مشیر تھے اور یو پی اے کی چیئر پرسن ہونے کی حیثیت سے لئے گئے ان کے فیصلہ میں احمد بھائی کا اہم کردار تھا۔ سب سے بڑی بات وہ انتہائی سادگی پسند اور گھمنڈ سے کوسوں دور شخصیت کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ احمد بھائی ملت کا غم بھی اپنے سینے میں رکھتے تھے اور اپنی بساط کے مطابق ملت کی غمگساری کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے، یو پی اے کے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے لئے جو بھی اچھے کام ہوئے اس کے پیچھے احمد بھائی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔


مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ان کی وفات سے نہ صرف کانگریس ایک با صلاحیت، متحرک اورممتاز لیڈرسے محروم ہوگئی ہے بلکہ ملک و ملت نے بھی ایک انتہائی مخلص لیڈر کو کھو دیا ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ احمد بھائی سے میرا ذاتی اور گھریلو تعلق تھا جسے انہوں نے آخری وقت تک نبھایا۔ آخری مرتبہ ان سے ستمبر2020 میں پارلیمنٹ کے اجلاس کے زمانہ میں دہلی میں ان کے گھر پر ملاقات ہوئی تھی، اس وقت وہ صحت مند اور ہمیشہ کی طرح مسکرا کر استقبال کرتے نظر آئے تھے مگر کسے پتہ تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔ ان کے جانے سے دل انتہائی مغموم ہے کیونکہ ان کا بدل کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ مولانا نے کہا کہ جب سے میں نے سیاسی میدان میں قدم رکھا تب سے آسام میں مسلمانوں کے مسائل سے لیکر سیاسی حالات سے متعلق بہت سے اہم اور پیچیدہ مسائل میں ان سے مشورہ طلب کیا اور انہوں نے ہمیشہ رہنمائی کی۔

دوسری طرف مولانا نے آسام کے سابق وزیر اعلی ترون گگوئی کے انتقال پر بھی اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گگوئی صاحب سے ہمارے گھریلو تعلقات بہت پُرانے تھے، وہ ہمارے گھر بھی کئی مرتبہ تشریف لاچکے تھے، ان سے آسام اور وہاں کے مسلمانوں کے مسائل پر ہمیشہ ملتا رہا اور مسائل کے حل کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتا رہا، البتہ جب میں نے سیاست میں قدم رکھا تو ہمارے اور ان کے درمیان سیاسی اختلاف ہوا اور ان کے سیاسی نظریہ سے ہمیں اختلاف رہا مگر 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے بعد انہوں نے ہماری پارٹی سے اتحاد کے لئے انتہائی پر زور انداز میں آواز اٹھائی اور راجیہ سبھا کے الیکشن میں متحدہ امیدوار کو جتاکر ہم لوگوں نے اپنے اتحاد کا عملی نمونہ پیش کر دیا تھا۔ اور ہم لوگ آئندہ اسمبلی الیکشن ساتھ ملکر لڑنے کا فیصلہ کر چکے تھے مگر افسوس کہ وہ ہمیں اسی درمیان چھوڑ کر چلے گئے۔ آخری بار ہماری ان سے ملاقات گوہاٹی میں ہاسپیٹل میں ہوئی تھی جب وہ کورونا سے متاثر ہوکر ہاسپیٹل میں تھے اور اس کے بعد وہ ٹھیک بھی ہو گئے تھے مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا اس لئے وہ دوبارہ بیمار ہوئے ہم سے جدا ہو گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */