مہاراشٹر: محکموں کی تقسیم کے بعد فڈنویس بنے ’سپر سی ایم‘ اور شندے خیمہ ہاتھ مَلتے رہ گیا!

مہاراشٹر حکومت میں محکموں کی تقسیم کے بعد جو تصویر سامنے آئی ہے اس سے واضح ہو گیا ہے کہ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس دراصل مہاراشٹر کے سپر سی ایم بن گئے ہیں۔

ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس
user

سجاتا آنندن

ایکناتھ شندے کے وزیر اعلیٰ بننے اور دیویندر فڈنویس کے نائب وزیر اعلیٰ بننے کے 41 دن بعد آخر کار مہاراشٹر کابینہ کی توسیع ہو گئی۔ اس کے بعد پانچ مزید دن لگے اس بات میں کہ کسے کون سا محکمہ دیا جائے اور آخر کار اتوار کو محکموں کی تقسیم ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی شندے خیمہ میں مایوسی کا ایک نیا دور بھی شروع ہو گیا۔ اتوار کو قلمدان تقسیم کیے جانے کے بعد جو تصویر سامنے آئی اس سے واضح ہو گیا کہ نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس دراصل مہاراشٹر کے ’سپر سی ایم‘ بن گئے ہیں۔ ان کے حصے میں داخلہ، مالیات، پلاننگ اور رہائش جیسے محکمے آئے ہیں، جب کہ شندے خیمہ کے حصے میں ایسے محکمے ہیں جو محض کٹھ پتلی کی طرح ہی کام کر پائیں گے۔

مہاراشٹر میں عام طور پر روایت رہی ہے اور اس پر عمل ہر اتحادی حکومت نے، وہ بھلے ہی شیوسینا، بی جے پی اور کانگریس و این سی پی کا رہا ہو، کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ محکمہ داخلہ نائب وزیر اعلیٰ کی پارٹی کو ملتا ہے جب کہ محکمہ ریونیو وزیر اعلیٰ کی پارٹی کے حصے میں آتا ہے تاکہ اتحاد کے چھوٹے شراکت دار کو محکمہ مالیات دے کر توازن بنائے رکھا جائے۔ اسی طرح شہری ترقی اور رہائش عام طور پر وزیر اعلیٰ کی پارٹی کے حصے میں اور دیہی ترقی نائب وزیر اعلیٰ کی پارٹی کے حصے میں آتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں زراعت و ڈیری ترقی جیسے مہاراشٹر کے اہم محکمے سینئر شراکت دار اور کوآپریٹو جیسے محکمے جونیئر شراکت دار کے حصے میں آتے رہے ہیں۔


مہا وکاس اگھاڑی حکومت کے تین شراکت داروں میں بھی محکموں کی تقسیم کافی سمجھداری سے کی گئی تھی تاکہ سبھی پارٹیوں کے درمیان تال میل اور توازن برقرار رہے۔ مہاوکاس اگھاڑی حکومت میں زراعت اور شہری ترقی شیوسینا کے پاس تھی، تو این سی پی کے پاس دیہی ترقی، کو آپریٹو اور کانگریس کے حصے میں ڈیری ترقی اور مویشی پروری محکمے آئے تھے۔ مالیات اور محکمہ داخلہ این سی پی کے پاس تھے جب کہ دو اہم محکمے پی ڈبلیو ڈی اور ریونیو کانگریس کے حصے میں تھے۔ اس طرح تینوں پارٹیوں کے درمیان ایک تال میل اور توازن تھا۔

لیکن اب شہری ترقی اور پی ڈبلیو ڈی کے علاوہ سبھی ایسے ملائی دار محکمے جو عوام سے براہ راست جڑے ہوتے ہیں اور ووٹ بینک بڑھانے میں کافی مدد کرتے ہیں، انھیں بی جے پی نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک غیر اہم جیسا زرعی محکمہ شیوسینا کو دے دیا گیا ہے جو کہ گزشتہ حکومت میں دادا بھوسے کے پاس تھا جو فڈنویس کے گود لیے شہر ناسک میں اپنا سیاسی قد بڑھا رہے تھے، ان سے اب یہ محکمہ چھین کر انھیں پورٹ کا محکمہ دے دیا گیا ہے۔


محکموں کی تقسیم کے بعد شندے گروپ کے بیشتر لیڈر بے حس سے ہو گئے ہیں اور لوگوں سے ملنا جلنا یا کوئی بیان دینا بند کر دیا ہے۔ دلیل دی گئی ہے کہ سب اپنے اپنے علاقوں میں یومِ آزادی کی تقریب میں شامل ہونے چلے گئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی نے قصداً سبھی اہم محکمے اپنے پاس رکھے ہیں۔ خاص طور سے دیہی شعبوں سے جڑے ہوئے محکمے، کیونکہ ان علاقوں میں اسے اپنی جڑیں جمانی ہیں جہاں کانگریس اور شیوسینا پہلے سے کافی مضبوط ہیں۔ دوسری طرف شہری علاقوں میں اپنی زبردست موجودگی کے درمیان ہی شیوسینا نے حال کے سالوں میں تقریباً ہر بلاک سطح پر اپنی شاخ تشکیل کر لی ہے جس کے سبب دیہی علاقوں میں اس کی نمائندگی بی جے پی سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی کی کاٹ کے لیے بی جے پی نے شندے کے لوگوں کو غیر اہم محکمے دیئے ہیں تاکہ ان علاقوں میں اپنی رسائی کر سکے۔

ویسے ایشو صرف یہی نہیں ہے کہ بی جے پی نے شندے گروپ کے ایک طرح سے پَر کتر دیئے ہیں بلکہ دیویندر فڈنویس کا اپنا عدم تحفظ کا جذبہ بھی ہے کیونکہ بی جے پی کے بھی لوگوں کو پچھلی بار کے مقابلے کوئی خاص اہم وزارتیں نہیں ملی ہیں۔ مرکزی وزیر نتن گڈکری نے حال میں اس وقت بم سا پھوڑ دیا تھا جب انھوں نے کہا تھا کہ دیویندر فڈنویس کو مرکز میں بلایا جا سکتا ہے اور ان کی جگہ چندرکانت بونکلے لے سکتے ہیں۔ بونکلے کو گڈکری کا نزدیکی مانا جاتا ہے۔ حال ہی میں بونکلے کو بی جے پی کا ریاستی صدر بنایا گیا ہے۔ 2019 میں فڈنویس نے بونکلے کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ وجہ صرف یہی تھی کہ وہ گڈکری کے نزدیکی ہیں اور وِدربھ علاقے سے آتے ہیں۔


اسی طرح مہاراشٹر بی جے پی صدر رہے چندرکانت پاٹل اور گڈکری کے ایک دیگر نزدیکی اور وِدربھ کے لیڈر سدھیر منگنتیوار کو حکومت میں جگہ تو ملی ہے لیکن انھیں غیر اہم محکمہ دیا گیا۔ اس سے قبل سابق نائب وزیر اعلیٰ گوپی ناتھ منڈے کی بیٹی پنکجا منڈے اس بات پر ناراضگی ظاہر کر چکی ہیں کہ انھیں حکومت میں وزارتی عہدہ نہیں دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ فڈنویس پنکجا منڈے کو بھی اپنا حریف مانتے ہیں اور ان کے راجیہ سبھا یا قانون ساز کونسل میں نامزدگی کو ہمیشہ نظر انداز کرتے رہے ہیں۔

نئی کابینہ میں صرف دو ہی لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔ خود فڈنویس اور رادھاکرشن ویکھے پاٹل کو، جو پہلے کانگریس-این سی پی حکومت میں وزیر زراعت تھے۔ بعد میں کانگریس کی طرف سے 2014 سے 2019 کے درمیان اپوزیشن کے لیڈر رہے۔ انھوں نے گزشتہ انتخاب سے عین قبل پلٹی ماری اور بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے۔ انھیں اس بار ریونیو، ڈیری ڈیولپمنٹ اور مویشی پروری محکمہ دیا گیا ہے۔ ویکھے پاٹل کے دادا کو مہاراشٹر میں کوآپریٹو تحریک کا علمبردار مانا جاتا ہے اور 1950 کی دہائی میں پنڈت جواہر لال نہرو نے انھیں پدم ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اب ویکھے پاٹل کے پاس ایسے محکمے ہیں جن سے جڑے ہوئے ان کے کئی کاروبار بھی ہیں۔


مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالات ایسے ہیں کہ بی جے پی کی اپنی ساتھی پارٹیوں کو لے کر ’استعمال کرو اور چھوڑ دو‘ کی پالیسی محکموں کی تقسیم سے ایک بار پھر ظاہر ہو گئی ہے۔ اور اس کے اثرات شندے خیمہ میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔