'پولیس کے کہنے پر مدرسہ گرایا تھا'، آسام واقع مدرسہ منہدم کرنے والوں کا حیرت انگیز انکشاف!

مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس میں تعلق رکھنے والے ایک ساتھی کو پیغام بھیجا گیا تھا اور اس نے ہی لوگوں کو مدرسہ توڑنے کے لیے اکسایا تھا۔

پولیس، علامتی تصویر
پولیس، علامتی تصویر
user

قومی آوازبیورو

آسام میں مبینہ طور پر دہشت گردی کا اڈہ قرار دے کر اب تک چار مدارس کو منہدم کیا جا چکا ہے۔ تین مدارس تو مقامی انتظامیہ کے ذریعہ منہدم کیا گیا، اور چوتھے مدرسہ، جو کہ گولپارہ ضلع کے دروگر الگا 4 واقع تھا، اس کو کچھ مقامی لوگوں نے گرا دیا۔ اب اس سلسلے میں ایک بڑی خبر سامنے آ رہی ہے کہ مقامی لوگوں نے اسے اپنی مرضی سے منہدم نہیں کیا، بلکہ پولیس نے ایسا کرنے کے لیے کہا تھا۔ دیہی عوام نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں پولیس کے ذریعہ ہدایت دی گئی تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ انہدامی کارروائی ہوئی۔ حالانکہ پولیس نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس میں تعلق رکھنے والے ایک ساتھی کو پیغام بھیجا گیا تھا اور اس نے ہی لوگوں کو مدرسہ توڑنے کے لیے اکسایا تھا۔ اس معاملے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ صرف دو لوگوں کے دہشت گردانہ تعلقات کے معاملے کی جانچ کر رہے ہیں، جو اب فرار ہیں اور مدرسہ میں پڑھا رہے تھے۔ پولیس کے مطابق دروگر الگا مدرسہ اور اس کے احاطہ میں ایک ریڈ ہاؤس کو منگل کو دیہی عوام نے خود ہی منہدم کر دیا تھا، کیونکہ اس کے دو اساتذہ کے مشتبہ جہادی تعلقات سامنے آئے تھے، اور جو مبینہ طور پر بنگلہ دیشی تھے۔


ایک مقامی باشندہ رحیم بادشاہ کا بیان میڈیا میں سامنے آیا ہے جس کا کہنا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل تھا جنھوں نے دو تعمیرات کو منہدم کر دیا تھا۔ اس نے بتایا کہ "میں ندی کنارے اپنے جوٹ کے کھیت میں کام کر رہا تھا، تبھی شکر علی (ایک دیہی عوام) نے مجھے مدرسہ احاطہ میں بلایا۔ اس نے مجھے اور پانچ چھ دیگر لوگوں سے تعمیر کو منہدم کرنے میں مدد کرنے کے لیے کہا تھا۔"

قابل ذکر بات یہ ہے کہ شکر علی خود کو بی جے پی کا کارکن بتاتا ہے۔ اس کے موٹر سائیکل پر کمل کا اسٹیکر بھی لگا ہے۔ ایسے کئی اسٹیکر اس کی رہائش کی دیواروں پر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ بادشاہ نے دعویٰ کیا کہ "جب میں نے علی سے پوچھا کہ ہمیں مدرسہ کیوں گرانا چاہیے، تو اس نے کہا کہ ایس پی اور ڈی ایس پی سر نے ہمیں ایسا کرنے کے لیے کہا ہے۔ جب میں مدرسہ احاطہ میں پہنچا تو میڈیا پہلے سے ہی موجود تھا۔" کئی دیگر مقامی افراد نے بادشاہ کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔


جب یہ باتیں شکر علی کے سامنے رکھی گئیں تو اس نے اعتراف کیا کہ میڈیا کو مدرسہ توڑنے کی کارروائی کور کرنے کے لیے پہلے سے بلایا گیا تھا اور تعمیرات کو اس کے سامنے منہدم کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ پولیس کے ذریعہ مدرسہ کو گرانے کے لیے کہنے کے سوال پر خاموش ہو گیا۔

دوسری طرف گولپارہ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ وی وی راکیش ریڈی کا کہنا ہے کہ مدرسہ اور آس پاس کے عارضی کمرے کے گھر کو گرانے میں پولیس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ریڈی نے یہ بھی کہا کہ ہماری طرف سے دیہی عوام سے ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی تھی۔ اگر اس کا منصوبہ بنایا گیا ہوتا تو ضلع انتظامیہ اس کے مطابق قدم اٹھاتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔