لو جہاد قانون یا تعصب کی کھلی چھوٹ! لڑکی ہندو ہو تو لڑکے پر ایف آئی آر، مسلم ہو تو پولیس کرے گی حفاظت

مبینہ لو جہاد سے متعلق یوگی حکومت کے قانون کے دو چہرے ظاہر ہو رہے ہیں، لڑکی ہندو اور لڑکا مسلم ہو تو ایف آئی آر درج ہو رہی ہے اور اگر لڑکی مسلم اور لڑکا ہندو ہو تو پولیس جوڑے کو تحفظ فراہم کر رہی ہے

لو جہاد قانون کے تحت یوپی کے بریلی میں سب سے پہلی گرفتاری عمل میں آئی / تصویر آئی اے این ایس
لو جہاد قانون کے تحت یوپی کے بریلی میں سب سے پہلی گرفتاری عمل میں آئی / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

لکھنؤ: اتر پردیش پولیس کی طرف سے نئے تبدیلی مذہب مخالف قانون کے نافذ ہونے کے بعد سے اب تک کئی معاملے اس قانون کے تحت درج کیے جا چکے ہیں اور پولیس کی طرف سے منمانے طریقہ سے اس قانون کا استعمال ہو رہا ہے۔ ایک ہی طرح کے معاملوں میں کسی لڑکے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا رہی ہے اور کسی معاملے میں جوڑے کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

ہندو روزنامہ جن ستا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس نے قانون نافذ ہونے کے بعد سے نو دنوں میں کئی معاملے درج کیے ہیں۔ ان کا مطالعہ کرنے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پولیس قانون کو اپنی مرضی کے مطابق تشریح کر رہی ہے اور متعصب ذہنیت سے ایک طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔


رپورٹ کے مطابق ہفتہ کے روز پولیس نے ایک مسلم شخص کی اس شکایت پر توجہ دینے سے انکار کر دیا، جس میں وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی بیٹی نے مذہب تبدیل کر کے ایک ہندو شخص سے شادی کی ہے۔ پولیس نے کہا کہ اس معاملہ میں خاتون نے خود گواہی دے دی ہے اور ان کی شادی قانون نافذ ہونے سے قبل ستمبر میں ہوئی تھی۔ لیکن اتوار کے روز مرادآباد میں پولیس نے تبدیلی مذہب مخالف قانون کے تحت ایک مسلم لڑکے کو گرفتار کر لیا۔

یہ گرفتاری بیوی کے اس بیان کے باوجود عمل میں آئی جس میں وہ کہہ رہی تھی کہ انہوں نے جولائی میں شادی کی تھی۔ پولیس نے لڑکے کو ہی نہیں بلکہ اس کے بھائی کو بھی گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ جبکہ، بریلی والے معاملہ میں پولیس نے کہا کہ انہوں نے اس خاتون کو اس کے شوہر کے گھر پہنچا دیا ہے، جبکہ مرادآباد پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کو ریاستی دار الامان میں رکھا گیا ہے۔


ہفتہ کے روز 22 سالہ علیشا کے والد شاہد میاں نے بریلی کے پریم نگر پولیس تھانہ میں ایک ایف آئی آر درج کرائی تھی، جس میں کہا گیا کہ ان کی بیٹی کا تین لوگوں نے اغوا کیا ہے۔ ان میں سے ایک اس فرم کا مالک بھی شامل تھا جہاں ان کی بیٹی کام کرتی تھی۔ ایف آئی آر میں علیشا کے شوہر سدھارتھ سکسینہ، اس کی بہن چنچل اور فرم کے مالک منوج کمار سکسینہ کا نام شامل ہے۔

چنچل اور علیشا ایک ساتھ کام کرتی تھیں اور تینوں ملزمان بریلی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ وہیں مرادآباد والے معاملہ میں پولیس نے الگ رُخ اختیار کیا ہے۔ اتوار کے روز پولیس نے 22 سالہ راش علی کو کانٹھ علاقہ سے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ پنکی (22 سال) کے ساتھ اپنی شادی کا رجسٹریشن کرانے جا رہا تھا۔ پولیس نے راشد کے ساتھ اس کے بھائی سلیم علی (25) کو بھی گرفتار کر لیا۔ بجنور کی رہنے والی پنکی کے اہل خانہ نے پولیس کو شکایت دیتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ اس کا مذہب جبراً تبدیل کرایا جا رہا ہے۔


جبکہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پنکی نے کہا کہ ’’میری شادی 24 جولائی کو راشد سے ہوئی تھی۔ میں تبھی سے مرادآباد کے کانٹھ میں رہ رہی ہوں۔ میں بالغ ہوں اور اپنی مرضی سے راشد کے ساتھ شادی کی ہے۔‘‘ اس معاملہ میں پولیس نے ایک نہیں سنی اور پنکی کے شوہر کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔