سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور، جملے بازی بنام حقیقت پر مبنی وعدے

اب فیصلہ عام آدمی کو کرنا ہے کہ وہ فضول کے نعرے، جملہ بازی، مذہبی پاگل پن یا کسی عصبیت سے متاثر ہو کر اپنے ووٹ کو برناد کرتا ہے یا غور و فکر کرکے ان وعدوں پر بھروسہ کرتا ہے جو قابل عمل ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈاکٹر ایم ایچ غزالی

انتخابی منشور میں جو بھی وعدے کئے جاتے ہیں، اقتدار حاصل کئے بغیر انہیں پورا نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت میں اقتدار دینے کا حق رائے دہندگان کے پاس ہوتا ہے ۔ مینی فیسٹو کا بنیادی مقصد ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنا اور لبھانا ہوتا ہے ۔ تاکہ انہیں مستقبل کی تصویر روشن و سہانی نظر آئے ۔ فطری طور پر انتخابی منشور میں وعدوں کے پورے ہونے میں آنے والی دشواریوں اور ناکامیوں کے اندیشوں کا ذکر نہیں ہوتا ۔ اسے رائے دہندگان کی سمجھ، صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ انتخابی منشور کو ووٹرز کے لئے پر کشش اور مفید بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ وعدوں پر غور کرنے اور سیاسی مبصرین کے تجزیوں سے اس کے قابل عمل ہونے کا اندازہ ہوتا ہے ۔ بر سر اقتدار پارٹی کے وعدوں کو اس کے ٹریک ریکارڈ کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے ۔ تو حزب اختلاف کے وعدے کو اس کے ارادے اور مستقبل کے منصوبہ کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔

ملک کی دونوں قومی پارٹیوں کا انتخابی منشور آ گیا ہے۔ بی جے پی کا سنکلپ پتر اور کانگریس کا ’ہم نبھائیں گے‘ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہے۔ پچاس صفحات پر مشتمل سنکلپ پتر میں 75 وعدے کئے گئے ہیں ۔ حسب سابق ان میں رام مندر کی تعمیر، دفعہ 370 ،35A کا خاتمہ، یکساں سول کوڈ، این آر سی بل کو لاگو کرنا، تین طلاق کے خلاف قانون لانے، مینجمنٹ، انجینئرنگ و لا کالجوں کی سیٹوں میں اضافہ، 75 میڈیکل کالج و یونیورسٹیوں کا قیام اور دہشت گردی پر زیرو ٹولرینس کی پالیسی پر عمل جیسے وعدے شامل ہیں۔

بی جے پی نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں کتنے کالج، یونیورسٹی بنائے یہ عام آدمی نہیں جانتا  البتہ ملک میں پارٹی کے 600 ہائی ٹیک آفیس بنے میڈیا کی معرفت اس سے پورا ملک واقف ہے ۔  روزگار، بد عنوانی اور نکسل واد کے نام پر سنکلپ پتر خاموش ہے ۔ جبکہ اس دوران بے روزگاری، نکسل وادی اور دہشت گردانہ واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ بھک مری کے معاملہ میں بھی قابل ذکر بڑھوتری ریکارڈ کی گئی ہے ۔ 2014 میں بھارت گلوبل ہنگر انڈیکس میں 55 ویں پائیدان پر تھا جو 2018 میں 103 ویں نمبر پر آگیا ۔ ہمارے پڑوسی ملک سری لنکا، بنگلہ دیش بھی ہم سے اچھی حالت میں ہیں ۔ رہا سوال بد عنوانی کا تو رافیل کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ فصل بیمہ، ڈیجیٹل اکنامی کے نام پر پے ٹی ایم کے فروغ اور بی ایس این ایل پر جیو کو ترجیح دینے کی کبھی جانچ ہوئی تو شاید کچھ اور حقائق سامنے آئیں ۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے فائدے اس میں ڈھونڈنے پر بھی دکھائی نہیں دیتے ۔ نوٹ بندی سے نہ دہشت گردی پر روک لگی اور نہ ہی کالے دھن کی بالا دستی ختم ہوئی ۔ غریب کنبوں کو بھیک کے بطور گیس کنکشن دینے کی بات تو کی گئی ہے لیکن غریبی دور کرنے کی کوئی تجویز پیش نہیں کی گئی ۔ دی ہندو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اجولا یوجنا کے تحت جنہیں مفت گیس کنکشن، چولہا دیا گیا تھا ان میں سے 85 فیصد چولہے پر ہی کھانا بنا رہے ہیں، غریبی کی وجہ سے سلنڈر ریفل کرانا ان کے لئے بڑا مسئلہ ہے ۔ بی جے پی نے سنکلپ پتر کے ذریعہ الیکشن کو صرف پولرائز کرنے کی کوشش کی ہے اور کچھ نہیں۔


کانگریس نے اپنے منشور میں "نیائے" اسکیم (کم از کم آمدنی کی گارنٹی) کے تحت ہر غریب کنبہ کے لئے 72000 روپے سالانہ مالی معاونت کے ذریعہ 6000 روپے ماہانہ آمدنی کو یقینی بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ منشور میں 24 لاکھ روزگار دینے، سرکاری ملازمتوں میں یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے اور جانب داری سے کام نہ لینے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ منریگا میں کام کے دنوں کو 100 سے 150 دن کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ کسانوں کے لئے الگ بجٹ لانے اور ان کے قرض کو جرم کے زمرے سے باہر کرنے نیز تعلیم پر جی ڈی پی کا چھ اور صحت پر تین فیصد خرچ کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ اس وقت تعلیم پر تین فیصد سے کم اور صحت پر صرف 1.4 فیصد ہی خرچ کیا جا رہا ہے ۔ دفعہ 370، 35A کو نہ بدلنے، این آر سی، AFSPA کو واپس لینے اور آئی پی سی کی دفعہ 124A کو ختم کرنے کا وعدہ بھی منشور میں شامل ہے ۔ خواتین کو خود کفیل بنانے اور سماج میں انہیں مساویانہ درجہ دلانے کے لئے پارلیمنٹ، اسمبلی اور سرکاری ملازمتوں میں 33 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کانگریس نے اپنے مینی فیسٹو میں نفرت کی بنیاد پر کئے جانے والے جرائم Hate Crime کو قانون بنا کر روکنے اور ایسے مجرموں کو سزائیں دلانے کا اہم وعدہ کیا ہے ۔ مودی سرکار میں ایسے جرائم عروج پر ہیں ۔ الیکشن کے دوران بھی اس طرح کے واقعات جاری ہیں، آسام میں عمر رسیدہ شوکت علی کی بے رحمی سے پٹائی اور جھارکھنڈ میں گائے کے مرنے پر دلتوں پر حملہ وقتل اس کی تازہ مثال ہے ۔ منشور میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ مآب لنچنگ "ننگا کرکے پٹائی" اور آگ میں ڈال کر جلا کر قتل کرنے جیسے جرائم روکے جائیں گے اور ایسے متاثرین کو ہرجانہ فراہم کیا جائے گا ۔ پولیس انتظامیہ کو اس کے لئے قصور وار سمجھا جائے گا اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ بی جے پی نے ہیٹ کرائم کو ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے ۔ منشور میں غیر قانونی حراست، بغیر ٹرائل کے حراست کے قانون میں ترمیم کی بات بھی کہی گئی ہے ۔ وقف املاک کی حفاظت، غیر قانونی قبضوں سے وقف املاک کو آزاد کرانے کے علاوہ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بنیادی کردار میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ پولیس اور الیکشن ریفارم کو لے کر بھی کانگریس نے اپنے نظریہ کی وضاحت کی ہے ۔ اتنا ہی نہیں میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھنے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ جائزہ کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ کانگریس کا منشور قابل عمل اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔

بی جے پی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو دھوکے سے تعبیر کیا تو کانگریس نے سنکلپ پتر کو جھانسہ پتر اور جھوٹ کا غبارہ قرار دیا ہے۔ این سی پی نے بھاجپا کے رام مندر وعدہ کو چناوی جملہ کہا ہے ۔ این ڈی اے میں شامل جے ڈی یو کے رہنما کے سی تیاگی نے بھاجپا کے سنکلپ پتر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا اور بی جے پی کا منشور الگ ہے ۔ دفعہ 370 اور 35A پر ہماری رائے منفرد ہے ۔ تین طلاق پر بھی ہم اس سے متفق نہیں ہیں ۔ مایا وتی نے کہا کہ بی جے پی کو نیا منشور جاری کرنے کے بجائے سابقہ انتخابی وعدوں کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنی چاہئے ۔ لیکن ایسا کرنے کی ان میں ہمت نہیں ہے ۔ پہلے بھی بی جے پی نے سبز باغ دکھا کر اپنے جال میں پھنسایا تھا اب پھر گمراہ کر رہی ہے ۔ کنہیا کمار نے کہا کہ بی جے پی صرف نفرت کی سیاست کرتی ہے اس کے سوا اس کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے ۔ جبکہ سبھی پارٹیوں کے انتخابی وعدوں میں عام آدمی کو مالی فائدہ پہنچانے کا وعدہ مشترک ہے۔

اب فیصلہ عام آدمی کو کرنا ہے کہ وہ فضول کے نعرے، جملہ بازی، مذہبی پاگل پن یا کسی عصبیت سے متاثر ہو کر اپنے ووٹ کو برناد کرتا ہے یا غور و فکر کرکے ان وعدوں پر بھروسہ کرتا ہے جو قابل عمل ہیں۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں نئے نعروں اور وعدوں میں اپنے پاپ چھپانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ترقی کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے ۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ عام آدمی نے جملے یا حقیقت میں سے کس کا انتخاب کیا ۔ فی الحال نعروں کی گھن گرج میں انسان کی ترقی کی آواز کہیں گم ہو گئی ہے لیکن انسان اپنی ترقی کی آواز اپنے ووٹ کے ذریعہ بلند کر سکتا ہے بشرط کہ وہ اپنے حق کا استعمال اپنے لئے کرنے کا فیصلہ کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */