لوک سبھا انتخابات: نوٹ بندی انتخابی ایشو بنے گا!...سید خرم رضا

دونوں اتحاد اس پہلے مرحلے میں سخت مقابلہ کر رہے ہیں۔ نوٹ بندی کے اثرات، معیشت کی تباہی اور بے روزگاری عوامی بحث کا مرکز بنیں گے اور حکمران جماعت کو اس کے جواب دینے ہوں گے

<div class="paragraphs"><p>نوٹ بندی کی برسی پر احتجاج / Getty Images</p></div>

نوٹ بندی کی برسی پر احتجاج / Getty Images

user

سید خرم رضا

پہلے مرحلے کے لئے انتخابی سرگرمیاں با ضابطہ طور پر شروع ہو گئی ہیں جس میں شمال مشرق، مغرب اور مرکزی ہندوستان میں 102 نشستوں کے لئے انتخابات ہو نے ہیں۔ دونوں اتحاد یعنی این ڈی اے اور انڈیا کے لئے پہلے مرحلے سے ہی مقابلہ شروع ہو جائے گا اور دونوں کی کوشش ہو گی کہ وہ  پہلے مرحلے سے ہی کامیابی حاصل کریں اور اپنے حریف کو شکست  سے دو چار کریں۔

ان انتخابات میں بہت سے ایشوز ہوں گے اور برسراقتدار جماعت سے بہت سے سوال کئے جائیں گے۔ ایک اہم سوال جس سے پورا ہندوستان متاثر ہو ا ہے وہ ہے نوٹ بندی یعنی 8 اکتوبر سال 2016 کو وزیر اعظم کے ذریعہ یہ اعلان کرنا کہ آج رات سے 500 اور 1000 روپے کے اس وقت کے کرنسی نوٹ محض ایک کاغذ کا ٹکرا رہ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ان کو تبدیل کرنے کے لئے ایک شیڈیول دیا گیا  اور یہ بھی اعلان کیا گیا کہ 1000 روپے کے نوٹ کو بند کر کے 2000 روپے کا نیا نوٹ جاری کیا جائے گا، جو اب سب سے بڑا کرنسی نوٹ ہوگا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اعلان شدہ شیڈیول میں کتنی مرتبہ تبدیلی کی گئی، کرنسی تبدیل کرنے کے لئے لائن میں لگے کتنے لوگوں کی جانیں گئیں اور گھر سے چل رہی متوازی معیشت کتنی بری طرح تباہ ہوئی لیکن وہ جب یاد آ جاتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔


برسر اقتدار اتحاد نے عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ یہ چند روزہ پریشانی ہے اور دہشت گردی کی کمر توڑنے کے لئے یہ انتہائی لازمی قدم ہے۔ جب عوام کے سامنے یہ پیغام گیا کہ دہشت گردی کی کمر توڑنے کے لئے یہ انتہائی اقدام  ایک مختصر وقت کے لئے لیا گیا ہے تو انہوں نے اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ ایک ہزار کی جگہ دو ہزار کی کرنسی سے کیسے دہشت گر دی کی کمر ٹوٹے گی عوام نے ملک کے لئے اس پریشانی کو قبول کر لیا۔ اگر یہ بڑے مقصد کے لئے تھوڑے وقت کی پریشانی ہوتی تو اس کو برداشت کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن بہت سے خاندانوں کے لئے یہ تھوڑے وقت کی پریشانی مستقل  پریشانی میں تبدیل ہو گئی۔

تقریباً ہر شہر میں ای رکشا کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان کا ملنا عام سی بات ہو گئی ہے لیکن ان ای رکشا چلانے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو باتوں باتوں میں بتاتے ہیں کہ کبھی ان کا اپنا کارخانہ تھا اور اس میں چار سے پانچ لوگ کام کیا کرتے تھے  لیکن اب ایسا نہیں ہے کیونکہ کارخانہ بند ہو گیا اور بچوں کو پالنے کے لئے کچھ تو کرنا ہی تھا، اس لئے یہ آسان راستہ نظر آیا! مرادآباد جو تانبے کے کام کے لئے مشہور تھا اور علی گڑھ تالوں کی صنعت کے لئے مشہور تھا، وہاں یہ صنعتیں تقریباً ختم ہو گئی ہیں اور ایک بڑی تعداد ای رکشا چلا کر اپنے بچوں کا پیٹ بھر رہی ہے۔ یہ وہ صنعتیں تھیں جنہوں نے ہندوستانی عوام کو نہ صرف روزگار دیا ہوا تھا بلکہ یہ لوگ ’میک ان انڈیا‘ کے علم بردار تھے۔  نوٹ  بندی کی وجہ سے قومی معیشت اور مڈل کلاس کے روزگار کو زبردست نقصان ہوا جس سے سماج ابھی تک نہیں ابھر سکا۔  


یہ سوال جہاں برسراقتدار اتحاد سے پوچھا جائے گا تو وہیں مرکزی میڈیا کی اس مسئلہ پر خاموشی پر بھی سوال کھڑے ہوں گے۔ حزب اختلاف اتحاد کے رہنماؤں سے بھی یہ پوچھا جائے گا کہ انہوں نے سارے معاملے میں کیا کچھ کیا۔ برسراقتدار اتحاد کے لئے یہ جواب دینا مشکل ہوگا کہ اس قدم سے کس حد تک دہشت گردی کی کمر ٹوٹی؟ بہرحال کچھ بھی  ہو معیشت کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور یہ انتخابی مسئلہ بنے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔