اپوزیشن اتحاد ’اِنڈیا‘ کے لیڈران نے اوم برلا کے ذریعہ طلب کی گئی ’بی اے سی میٹنگ‘ کا کیا بائیکاٹ

’’بی اے سی میں ہماری واحد گزارش یہ تھی کہ پہلے تحریک عدم اعتماد پر بحث ہونی چاہیے، پھر بل پیش اور پاس کیا جا سکتا ہے، ہم نے کبھی ایسی حکومت نہیں دیکھی جو پارلیمانی پیمانوں پر عمل نہیں کرتی۔‘‘

اوم برلا، تصویر آئی اے این ایس
اوم برلا، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

اپوزیشن اتحاد ’اِنڈیا‘ کے لیڈروں نے حکومت کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد پر بحث شروع کرنے کے لیے منگل کو آفیشیل طور پر کسی تاریخ کی تصدیق نہیں کرنے پر لوک سبھا اسپیکر اوم برلا کے ذریعہ طلب کی گئی بی اے سی (بزنس ایڈوائزری کمیٹی) کی میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ حالانکہ بعد میں آفیشیل ذرائع نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث 8، 9 اور 10 اگست کے درمیان ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی 10 اگست کو بحث کا جواب دے سکتے ہیں۔

بہرحال، اپوزیشن اراکین اس بات پر اعتراض ظاہر کیا ہے کہ حکومت اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے باوجود بل پیش کر رہی ہے اور پاس کر رہی ہے۔ کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری، ترنمول کانگریس لیڈر سدیپ بندوپادھیائے، ڈی ایم کے لیڈر ٹی آر بالو اور جنتا دل یو لیڈر راجیو رنجن سنگھ للن اور دیگر سبھی اپوزیشن لیڈران نے دوپہر 12 بجے لوک سبھا اسپیکر کے ہال میں میٹنگ شروع ہونے کے کچھ منٹ بعد ہی میٹنگ کا بائیکاٹ کر دیا۔


ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ لوک سبھا میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور ہونے کے باوجود حکومت کے ذریعہ بل پیش کرنے اور پاس کرانے کے ایشو پر انھوں نے میٹنگ کا بائیکاٹ کیا۔ انھوں نے کہا کہ میٹنگ میں تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے تاریخ اور وقت کی تصدیق نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بی اے سی میں ہماری واحد گزارش یہ تھی کہ پہلے تحریک عدم اعتماد پر بحث ہونی چاہیے، پھر بل پیش اور پاس کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے کبھی ایسی حکومت نہیں دیکھی جو پارلیمانی پیمانوں پر عمل نہیں کرتی ہے۔‘‘

ترنمول کانگریس لیڈر سدیپ بندوپادھیائے نے بعد میں نامہ نگاروں سے کہا کہ بڑلا نے میٹنگ میں اپوزیشن اراکین کو مطلع کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے مناسب وقت ہے اور انھیں اس کے بارے میں پہلے ہی مطلع کر دیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔