اگر ہمارے ایم ایل اے توڑے تو ہم دوگنے توڑیں گے: بی جے پی کو انتباہ

کانگریس-جے ڈی ایس اتحاد کی طرف سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کماراسوامی نے بی جے پی کے ذریعہ خرید و فروخت کی کوشش کی تنقید کی اور کہا کہ اس بار ’آپریشن کمل‘ کی کوشش نہ کریں ورنہ یہ چال الٹی پڑ جائے گی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کرناٹک میں حکومت سازی سے متعلق ابھی تک کچھ بھی صاف نہیں ہوا ہے۔ ایک طرف بی جے پی کے وزیر اعلیٰ امیدوار یدورپا 17 مئی کو حلف برداری کرنے کو لے کر پرامید نظر آ رہے ہیں اور دوسری طرف کماراسوامی پراعتماد ہیں کہ گورنر وجوبھائی والا جے ڈی ایس-کانگریس اتحاد کو حکومت سازی کے لیے بلائیں گے۔ اس درمیان بی جے پی کا ’آپریشن کمل‘ شروع ہو چکا ہے یعنی کسی بھی طرح حکومت سازی کے لیے بی جے پی کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ کانگریس کے 4 ممبران اسمبلی اور جے ڈی ایس کے 2 ممبران اسمبلی کے غائب ہونے کو بھی اسی سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ کماراسوامی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جے ڈی ایس ممبران اسمبلی کو بی جے پی خریدنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہر ممبر اسمبلی کو اس کے لیے 100 کروڑ روپے دینے کی بات ہو رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی کماراسوامی نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ’’میں بی جے پی کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس بار ’آپریشن کمل‘ کی کوشش بھی نہ کرے۔ اس بار ان کی یہ چال الٹی پڑ جائے گی کیونکہ وہ جتنے ممبران اسمبلی توڑے گی ہم اس سے دوگنے ممبران اسمبلی کو اپنے حق میں کھڑا کر لیں گے۔‘‘

ایک طرف ممبران اسمبلی کی خرید و فروخت کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف بی جے پی، کانگریس اور جے ڈی ایس لیڈروں کے بیانات بھی لگاتار آ رہے ہیں۔ ہر پارٹی کا یہی کہنا ہے کہ گورنر اسے حکومت سازی کی دعوت دے۔ یدیورپا نے تو آج صبح بھی گورنر سے ملاقات کی اور بی جے پی کو موقع دینے کی بات کہی۔ لیکن کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ آج صبح 12 بجے سے وہ گورنر سے ملاقات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انھیں وقت نہیں دیا جا رہا ہے۔ گورنر وجوبھائی والا کی اس روش سے جے ڈی ایس اور کانگریس پریشان ہے۔ کماراسوامی نے گورنر سے گزارش بھی کی ہے کہ وہ گوا، منی پور اور میگھالیہ میں لیے گئے فیصلہ کے مطابق ہی راستہ اختیار کریں۔

بدھ کی صبح کرناٹک میں حکومت تشکیل سے متعلق غور و خوض کے لیے میٹنگ ہوئی جس میں ایچ ڈی کماراسوامی کو جے ڈی ایس قانون ساز پارٹی کا لیڈر منتخب کیا گیا۔ پارٹی میٹنگ کے بعد انھوں نے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’’بی جے پی نے سیکولر ووٹ کو تقسیم کر کے 104 سیٹیں حاصل کی ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر حملہ آور رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے پاس ضروری ہندسہ نہیں ہے اور ایسے میں وزیر اعظم کو نہیں کہنا چاہیے تھا کہ یہاں بی جے پی حکومت بنائے گی۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی تنقید کرتے ہوئے کماراسوامی نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’وزیر اعظم نریندر مودی کالے دھن کے خلاف بولتے ہیں اور ان کی ہی پارٹی بی جے پی ہمارے کچھ ممبران اسمبلی کو 100 کروڑ روپے اور کابینہ پوسٹ کا لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ 100 کروڑ روپے بلیک کا ہوگا یا وہائٹ کا؟‘‘ اس پورے معاملے کو کماراسوامی بی جے پی کے ’آپریشن کمل‘ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ’آپریشن کمل‘ کرناٹک کی سیاست کا ایک انتہائی یادگار معاملہ تصور کیا جاتا ہے۔ دراصل 2008 کے انتخابات میں بھی سہ رخی اسمبلی کے حالات بن گئے تھے۔ اس وقت ایوان کی سب سے بڑی پارٹی رہی بی جے پی نے جے ڈی ایس کے چار اور کانگریس کے تین ممبران اسمبلی کو توڑتے ہوئے ریاست میں حکومت بنائی تھی۔ پارٹی کے خلاف جانے والے لیڈروں کو دوبارہ انتخاب میں ٹکٹ دینے اور حکومت میں اہم ذمہ داری سونپنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس طرح ریاست کی 224 رکنی اسمبلی میں بی جے پی نے 121 ممبران اسمبلی کے ساتھ حکومت چلائی تھی۔

2008 جیسی ہی حالت اس بار بھی بن گئی ہے۔ کسی پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہو پائی ہے۔ بی جے پی 104 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن 78 سیٹیں جیتنے والی کانگریس نے حکومت سازی کے لیے 38 سیٹیں حاصل کرنے والی جے ڈی ایس کو حمایت دینے کا فیصلہ کر لیا اس لیے بی جے پی کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ اس طرح ایک بار پھر بی جے پی کو حکومت سازی کا موقع کانگریس اور جے ڈی ایس میں توڑ پھوڑ کیے بغیر نہیں مل سکتا۔

کانگریس اور جے ڈی ایس میں توڑ پھوڑ کرنے کا اشارہ بی جے پی ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں سے بھی مل رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے کرناٹک میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے ضروری تعداد حاصل کر لی ہے۔ حکومت بنانے کی دعوت ملنے پر وہ ایوان میں اکثریت ثابت کر دے گی۔ اطلاعات کے مطابق رائے چور، بیلگام اور بیلاری کے کم و بیش 12 ممبران اسمبلی سے بی جے پی کی بات ہو چکی ہے۔ ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کے وقت یہ ممبران اسمبلی غیر حاضر رہ سکتے ہیں جس سے ضروری ممبران اسمبلی کی تعداد 111 سے کم ہو جائے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 May 2018, 4:24 PM