کرناٹک تنازعہ: حجاب کے خلاف بوئی گئی نفرت نے ہماری امیدیں توڑ دیں، عرضی گزار طالبہ

کالج میں سائنس کی 6 طالبات میں سے تین عرضی گزاروں الماس اے ایچ، حاجرہ شفا اور بی بی عائشہ کو پیر کے روز امتحان سے محروم کر دیا گیا تھا۔

حجاب کے حق میں مظاہرہ / یو این آئی
حجاب کے حق میں مظاہرہ / یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

اڈوپی: کرناٹک کے اڈوپی گرلس پری یونیورسٹی کالج کی تین طالبات جو حجاب پہننے کی اجازت نہ دیئے جانے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کر چکی ہیں، انہیں حجاب پہننے کی وجہ سے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان میں سے ایک طالبہ نے حجاب کے خلاف نفرت کے بیج بونے کے لئے کالج کے عہدیداروں پر تنقید کرتے ہوئے ایک ویڈیو جاری کی ہے۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے۔

خیال رہے کہ کالج میں سائنس کی 6 طالبات میں سے تین عرضی گزاروں الماس اے ایچ، حاجرہ شفا اور بی بی عائشہ کو پیر کے روز امتحان سے محروم کر دیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے طالبات میں سے ایک نے کنڑا اور اردو زبان میں ویڈیو پوسٹ کی، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ کالج کے پرنسپل کی جانب سے انہیں بے رحمی سے کالج کے احاطہ سے باہر نکلنے کے لئے کہا گیا اور ان کے خلاف معاملہ درج کرنے کی دھمکی دی گئی۔


طالبات میں سے ایک الماس نے کہا کہ ’’آج ہمارا آخری پریکٹیکل امتحان تھا۔ ہم نے اپنی کتابیں پوری کر لی تھیں اور پریکٹیکل امتحان میں بڑی امید کے ساتھ شامل ہونے کے لے آئے تھے۔ یہ بہت مایوس کن تھا جب ہمارے پرنسپل نے ہمیں یہ دھمکی دی کہ آپ کے پاس 5 منٹ ہیں۔ یا تو واپس لوٹ جاؤ نہیں تو پولیس میں شکایت درج کرا دی جائے گی!

انہوں نے کہا کہ "ابھی ہمیں پریکٹیکل میں حصہ لینے کے لیے اپنی لیب میں ہونا چاہیے تھا، واپس لوٹنے کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ میری کالج سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ حجاب کے خلاف بوئی جانے والی نفرت کی وجہ سے ختم ہو گئی ہیں۔‘‘ تاہم پرنسپل رودرے گوڑا نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔


محکمہ تعلیم نے واضح کیا ہے کہ ریاست کے پری یونیورسٹی کالجوں میں تقریباً 80000 مسلم لڑکیاں زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے صرف چند ایک ہی بغیر حجاب کے کلاسز میں شرکت کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ انہیں ان طلباء کے پیچھے کسی تنظیم کے کردار پر شبہ ہے اور محکمہ پولیس اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ دریں اثنا، حجاب کے معاملے کو دیکھنے کے لیے قائم ہائی کورٹ کی ایک بڑی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔