قاتل طاقتور اور پیسہ والے ہیں، ان کی ضمانت ہو گئی: موب لنچنگ کے شکار مرحوم جنید کی والدہ

سائرہ خاتون کہتی ہیں کہ پورا سسٹم ان کے ساتھ ہے، کوئی ان کے خلاف گواہی نہیں دینا چاہتا۔ ہمارے گھر میں تو کھانے کے بھی لالے ہیں، مہینوں سے گھر میں صرف ایک وقت ہی سبزی بنتی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

میوات سے تعلق رکھنے والے حافظ جنید کو دہلی سے عید کی خریداری کرنے کے بعد ٹرین کے ذریعے لوٹتے وقت ہندو انتہا پسندوں نے چاقوؤں سے حملہ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس واقعہ کو تین سال گزر چکے ہیں، لیکن جنید کی والدہ سائرہ خاتون کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

سائرہ اپنا درد یوں بیان کرتی ہیں، ’’اس دن میرے تین بچے خون سے لت پت پڑے ہوئے تھے اور صدمہ کی وجہ سے میرے شوہر کو دل کا دورہ پڑ گیا تھا۔ عید سے پہلے میرے بچے کو قتل کر دیا گیا، یوں لگتا ہے کہ ہماری زندگی میں اب کبھی عید نہیں آئے گی! اب تو بچوں کو گھر سے باہر بھیجنے میں بھی ڈر لگتا ہے۔ سب کا روزگار ختم ہو چکا ہے۔ جن لوگوں نے جنید کو قتل کیا وہ بہت طاقتور ہیں، پیسے والے ہیں۔


سائرہ مزید کہتی ہیں ’’سسٹم ان کے ساتھ ہے، کوئی ان کے خلاف گواہی نہیں دینا چاہتا۔ ہمارے گھر میں تو کھانے کے بھی لالے ہیں اور مہینوں سے گھر میں صرف ایک وقت ہی سبزی بنتی ہے۔ کل تک جو خیرخواہ ہوا کرتے تھے آج وہ فون بھی نہیں کرتے۔ تین سال ہو گئے مجھے میرا جنید بہت یاد آتا ہے۔ اس کا چہرہ کبھی میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتا۔‘‘

سال 2017 کی 22 جون کو عید کی خریداری کر کے واپس لوٹ رہے حافظ جنید کا بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ انتہا پسندوں نے اس پر 22 بار چاقو سے حملہ کیا تھا۔ جنید اس وقت محض 15 سال کا تھا اور اس واقعہ کو اب 3 سال گزر چکے ہیں۔ حافظ جنید میوات کے کھنداولی گاؤں کے رہائشی تھے اور محض 13 سال کی عمر میں انہوں نے قرآن حفظ کر لیا تھا۔ دہلی سے بذریعہ ٹرین اپنے گھر جارہے تھے جنید کو بلبھ گڑھ ریلوے اسٹیشن پر قتل کر کے اسے پھینک دیا گیا تھا۔ حملہ میں جنید کے بھائی شاکر کو بھی شدید طور پر زخمی کیا گیا تھا۔ شاکر کا ایک ہاتھ اب کام نہیں کرتا۔


انتہا پسندوں نے جنید پر مسلمان ہونے کی وجہ سے حملہ کیا تھا، حالانکہ بعد میں یہ کہا گیا کہ جھگڑے کی شروعات سیٹ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ موب لنچنگ کے اس ہولناک واقعہ کو اتنا وقت گزر جانے کے باوجود ملزمان کو سزا ملنے کی امید کم ہی نظر آتی ہے۔ عدالت سے ملزمان کو ایک مہینے سے بھی کم وقت میں ضمانت مل گئی، ایسا تمام گواہان کے مکر جانے کی وجہ سے ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ جنید کے اہل خانہ پر فیصلہ کرنے کا بھی دباؤ بنایا گیا تھا لیکن انہوں نے سمجھوتہ نہیں کیا۔ جنید کی والدہ سائرہ تمام معاشی دقتوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے بچے کو انصاف دلانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔

سائرہ کہتی ہیں، ’’آج کل نظام صرف اور صرف امیروں کی حمایت کرتا ہے۔ جنید کے ابا ٹیکسی چلاتے تھے اب نہیں چلاتے۔ میرے بچے کے قاتلوں کو ضمانت مل گئی۔ اسٹیشن پر سینکڑوں لوگ تھے سب مکر گئے۔ کسی نے کچھ نہیں دیکھا! سرکار نے کہا تھا 10 لاکھ روپے دیئے جائیں گے لیکن ایک پیسہ نہیں دیا گیا۔ پیسے کی کمی کی وجہ سے ہماری انصاف کی لڑائی کمزور پڑ گئی ہے۔‘‘


وہ کہتی ہیں کہ ’’وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر سے اپنے دوسرے بچے کے لئے نوکری مانگی تو انہوں نے کہا نوکری نہیں ہے۔ دہلی سرکار نے بھی نوکری نہیں دی۔ امانت اللہ (دہلی کی اوکھلا سیٹ سے رکن اسمبلی) نے وقف بورڈ کے لئے کافی کوششں کی، لیکن وہاں بھی نہیں لگ سکی۔ تاہم امانت اللہ کے بہت حسان ہیں ہم پر۔ شاکر کو انہوں نے ہی اپالو اسپتال میں داخل کرا دیا تھا، حفاظت کرنے والی ذات تو اللہ کی ہے لیکن اس کے بچنے کی امید ختم ہونے لگی تھی۔ اللہ اس کے اہل و عیال کی عمر میں برکت دے، اس کا احسان ہم سے کبھی نہیں اترے گا۔‘‘ سائرہ کو افسوس ہے کہ میوات کے کسی بڑے لیڈر نے اس مشکل وقت میں ان کے کنبہ کی خبر نہیں لی۔ جنہوں نے وعدے کیے وہ بھی وفا نہیں ہو سکے۔

سائرہ نے کہا، ’’جنید کی موت کے ایک ڈیڑھ مہینے تک لوگ آتے رہے۔ تین مہینے تک تو میں صدمہ کی وجہ سے گھر سے باہر بھی نہیں نکلی تھی۔ عمران پرتاپ گڑھی عیدی لے کر ہمارے گھر آئے تھے۔ اس نے بہت آواز اٹھائی، لیکن اس بیچارے کی بھی کسی نے نہیں سنی۔ اب تو خیر خواہ بننے والے کسی لیڈر کی کال بھی نہیں آتی۔ جو کماتے ہیں اسی سے چنڈی گڑھ کے چکر لگا رہے ہیں۔ میرا بچہ قوم کے نام پر شہید ہوا اور قوم نے ہی اسے اکیلا چھوڑ دیا۔‘‘


واضح رہے کہ حافظ جنید کی موب لنچنگ میں قتل کے بعد ہندوستان بھر میں سخت غم و غصہ نظر آیا تھا اور ملی تنظیموں نے اعلان کیا تھا کہ انصاف کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ جمعیۃ علما ہند نے بھی جنید کا مقدمہ لڑنے کا اعلان کیا تھا اور ایڈوکیٹ وی کے گوئل سے اس کی پیروی کرانے کو کہا تھا۔

سائرہ خاتون کے بقول ان کے 8 بچوں میں سے جنید سب سے زیادہ ذہین تھا۔ 22 جون کو جب ٹرین میں اسے موب لنچنگ کا شکار بنایا گیا تھا تو اسے گائے کھانے والا اور غدار جیسے لفظ کہے گئے تھے۔ حملہ آوروں کے مجرمانہ ریکارڈ کا بھی انکشاف ہوا تھا۔ حملہ میں جنید کے بھائی شاکر کو بھی چاقو مارے گئے تھے جبکہ ایک اور بھائی ہاشم کا بھی ہاتھ کٹ گیا تھا۔ جبکہ جنید نے موقع پر ہی دم توٖڑ دیا تھا۔ اس حملہ کے چشم دید اور جنید کے بھائی ہاشم نے بعد میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ جس وقت حملہ ہو رہا تھا انہیں کسی نے نہیں بچایا، یہاں تک کہ کسی کو برا بھی نہیں لگ رہا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔