کشمیر: بی جے پی کارکنان کی 'لال چوک' میں ترنگا لہرانے کی کوشش ناکام

آج صبح جس وقت بی جے پی کے یہ کارکن لال چوک پہنچے تو علاقے کے بازار بند تھے اور وہاں مقامی لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ انہوں نے بظاہر لوگوں کے غیض وغضب سے بچنے کے لئے یہ وقت چنا تھا۔

تصویر ویڈیو گریب
تصویر ویڈیو گریب
user

یو این آئی

سری نگر: جموں و کشمیر پولیس نے پیر کی صبح بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کئی کارکنوں کو اس وقت حفاظتی تحویل میں لے لیا جب وہ سری نگر کے تاریخی لال چوک کے گھنٹہ گھر پر 'ترنگا' لہرانے کے لئے شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ سے یہاں آ پہنچے تھے۔ پیر کی صبح جس وقت بی جے پی کے یہ کارکن لال چوک پہنچے تو علاقے کے بازار بند تھے اور وہاں مقامی لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ انہوں نے بظاہر لوگوں کے غیض وغضب سے بچنے کے لئے یہ وقت چنا تھا۔

پولیس ذرائع نے اپنی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کارکن متعلقہ حکام سے پیشگی اجازت حاصل کیے بغیر لال چوک پہنچ گئے تھے نیز ہم نہیں چاہتے ہیں کہ کسی بھی جماعت کے اقدام کے نتیجے میں یہاں کا امن و سکون متاثر ہو۔ بی جے پی کے کارکن بظاہر پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ایک حالیہ بیان کے ردعمل میں 'ترنگا' لہرانے کے لئے لال چوک آئے تھے۔ تاہم ان کارکنوں نے 'ترنگا' لہرانے کے لئے اُس دن کو چنا ہے جس دن سنہ 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کا بھارت سے الحاق کیا تھا۔


محبوبہ مفتی نے گزشتہ روز اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ میں تب تک کوئی جھنڈا نہیں اٹھاؤں گی جب تک جموں وکشمیر کا جھنڈا واپس نہیں ملے گا۔ بی جے پی کے کارکن محبوبہ مفتی کے اس بیان کو ترنگے کی توہین اور گستاخی سے تعبیر کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق کپوارہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے کارکن بظاہر لوگوں کے غیض وغضب سے بچنے کے لئے پیر کی صبح لال چوک میں نمودار ہوئے اور 'بھارت ماتا کی جے، بی جے پی یونٹ کپوارہ زندہ باد' جیسے نعرے لگاتے ہوئے تاریخی گھنٹہ گھر کی جانب بڑھنے لگے۔ تاہم جموں و کشمیر پولیس نے نقص امن کے خدشے کے پیش نظر بی جے پی کے ان کارکنوں کو ترنگا لہرانے سے قبل ہی حفاظتی تحویل میں لے کر پولیس تھانہ کوٹھی باغ منتقل کیا۔


بی جے پی کے کارکنوں نے ترنگا لہرانے کی کوشش صبح سویرے اس وقت کی جب اس تجارتی مرکز میں کسی دکاندار نے اپنی دکان نہیں کھولی تھی نہ عام شہریوں کی کوئی نقل وحرکت نظر آ رہی تھی۔ تاہم جموں و کشمیر پولیس نے 'یوم الحاق' کے پیش نظر تاریخی لال چوک پر پولیس اور سی آر پی ایف کی تعیناتی پیر کی علی الصبح ہی عمل میں لائی گئی۔ پولیس ذرائع نے واقعہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 'بی جے پی کارکن پیشگی اجازت حاصل کیے بغیر یہاں آئے تھے۔ ہم امن وامان میں خلل ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دے سکتے ہیں'۔

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی جموں وکشمیر یونٹ نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کئی بار تاریخی لال چوک میں ترنگا لہرانے کی کوششیں کیں، تاہم کشمیر انتظامیہ نے ہر بار امن وامان کے مسئلے کو وجہ کے طور پر پیش کرتے ہوئے ایسا کرنے کی اجازت نہ دی۔ 2015 کے مئی میں ایک غیر معروف سماجی تنظیم 'یوتھ فار نیشن' نے کشمیری علیحدگی پسندوں جماعتوں کی ریلیوں میں پاکستانی جھنڈے لہرانے کے ردعمل میں لال چوک میں 16 مئی کو ترنگا لہرانے کا اعلان کر رکھا تھا۔ لیکن اس وقت کی پی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت نے مذکورہ تنظیم کو اس کی اجازت نہیں دی۔


'یوتھ فار نیشن' کا لال چوک میں ترنگا لہرانے کا منصوبہ اُس وقت سامنے آیا تھا جب مذکورہ تنظیم کے سربراہ نمرن دیپ سنگھ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے لگی تھی جس میں انہوں نے حریت لیڈران کو چیلنج کیا تھا کہ ہند مخالف سرگرمیاں برداشت نہیں کی جائیں گی۔ انہوں نے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ اُن کی جنگ کسی مذہب یا سیاسی جماعت سے نہیں ہے بلکہ اُن ملک مخالف عناصر کے خلاف ہے جو پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں۔

اسی سال کے 9 اکتوبر کو دو غیر کشمیری نوجوانوں نے تاریخی گھنٹہ گھر پر ترنگا لہرانے کی کوشش کی تھی جن کو پولیس نے حفاظتی تحویل میں لیا تھا۔ تاہم جوں ہی گھنٹہ گھر پر ترنگا لہرانے کی خبر علاقے میں پھیل گئی تو وہاں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے جس دوران مظاہرین نے آزادی کے حق میں نعرے بازی کی تھی۔ سال 2016 کے 11 اپریل کو جموں و کشمیر پولیس نے بھگت سنگھ کرانتی سینا کے صدر تیجندر پال سنگھ کی سری نگر کے این آئی ٹی میں ترنگا لہرانے کی کوشش ناکام بنائی۔


6 دسمبر 2017 کو تاریخی گھنٹہ گھر پر ترنگا لہرانے کے لئے آنے والے شیو سینا اور بجرنگ دل کے کارکنوں کو ریاستی پولیس نے حفاظتی تحویل میں لیا تھا۔ تب شیو سینا نے لال چوک میں ترنگا لہرانے کا فیصلہ نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بیان کہ 'پاکستان زیر قبضہ کشمیر پر ہاتھ ڈالنے سے قبل لال چوک میں ترنگا لہرا کر دکھاﺅ' کو چیلنج کے طور پر لیتے ہوئے لیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔