کرن تھاپر کی حق گوئی حکومت سے برداشت نہیں ہو سکی... سہیل انجم

اکثریت کے زعم میں چلنے والی حکومت کے تازہ شکار کرن تھاپر ہیں۔ اس سے قبل جانے کتنے سچے صحافیوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور کتنے اس حکومت کے عتاب کا نشانہ بنیں گے کہا نہیں جا سکتا۔

معروف صحافی کرن تھاپر/  Getty Images
معروف صحافی کرن تھاپر/ Getty Images
user

سہیل انجم

موجودہ دور حکومت میں حق گو اور غیر جانبدار صحافیوں پر کس طرح عتاب نازل ہوتا ہے اس کی تازہ مثال معروف اور سینئر صحافی کرن تھاپر کی ہے۔ انھوں نے حق گوئی پر مبنی ایک مضمون کیا لکھا کہ اخبار نے انھیں بلیک لسٹ کر دیا۔ اخبار کے مالکان کو اندیشہ ہے کہ اس مضمون میں کہی گئی باتوں کا شدید رد عمل ہوگا۔ ممکن ہے کہ اخبار کے خلاف کارروائی بھی ہو جائے۔ حالانکہ وہ بہت مشہور اخبار ہے۔ اس کا نام ایشین ایج ہے۔ اسے سینئر صحافی اور سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر نے شروع کیا تھا۔ لیکن پھر وہ سیاست میں چلے گئے اور ایک بار پھر سیاست سے صحافت میں آگئے ہیں البتہ کسی دوسرے ادارے میں۔ مذکورہ مضمون تقسیم ملک کے وقت جموں خطے میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے فسادات اور ان کے قتل عام سے متعلق تھا۔

کرن تھاپر کا نام کوئی معمولی نام نہیں ہے۔ وہ بی بی سی وغیرہ میں کام کر چکے ہیں۔ ملک کے چند بڑے صحافیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آجکل وہ ڈیجٹل نیوز ادارے ’’دی وائر‘‘ کے لیے ہر ہفتے کسی ایک بڑی شخصیت کا انٹرویو کرتے ہیں۔ ایشین ایج کے ایڈیٹر کی درخواست پر انھوں نے اس کے لیے ہر پندرہ روز پر ایک مضمون لکھنا شروع کیا تھا۔ گزشتہ دس مہینوں سے وہ مضمون لکھتے رہے ہیں۔ لیکن ان کا تازہ مضمون شائع ہوا تو سرکاری حلقوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ذرائع کے مطابق اندر ہی اندر اس مضمون پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ ایشین ایج کے ایڈیٹر کوشک مِٹّر نے انھیں فون کرکے بتایا کہ اخبار کے مالکان نے انھیں ہدایت دی ہے کہ آپ کے مضامین کو فی الحال شائع کرنے سے روک دیا جائے۔ یہ مضمون بیس اگست 2021 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔


قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ اس مضمون میں ایسی کیا بات تھی کہ حکومت کو بری لگ گئی اور کرن تھاپر جیسے بڑے صحافی کا مضمون روک دیا گیا۔ اس سے پہلے یہ جان لیں کرن تھاپر کبھی بھی حکومت کے پسندیدہ صحافیوں کی صف میں شامل نہیں رہے ہیں۔ وہ ان صحافیوں کی صف میں پیش پیش نظر آتے ہیں جن کا قلم حکومت کو پریشانیوں میں مبتلا کرتا رہا ہے۔ جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو گجرات فسادات کے بعد کرن تھاپر نے سی این این آئی بی این چینل کی طرف سے ان کا ایک انٹرویو کیا تھا۔ انھوں نے انٹرویو کے دوران گجرات فسادات سے متعلق ان سے ایسے تیکھے اور سخت سوالات کیے تھے کہ مودی کو پسینہ آگیا تھا۔ انھوں نے انٹرویو کے درمیان آدھا گلاس پانی پیا اور کان میں لگی ہوئی لیڈ نکالتے ہوئے کرن تھاپر سے کہا کہ بس اب انٹرویو ہو چکا۔ ہماری آپ کی دوستی بنی رہے گی۔

ان کے اس رویے پر کرن تھاپر ہکا بکا رہ گئے۔ کیونکہ ان کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کے سوالات مودی کو اس قدر چبھیں گے کہ وہ بیچ ہی میں انٹرویو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہو ں گے۔ شاید مودی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ کرن ان سے ایسے سوالات کریں گے جو ان کو مصیبت میں ڈال دیں۔ اگر اندازہ ہوتا تو شاید وہ انٹرویو دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ انھوں نے نہ تو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کبھی پریس کانفرنس کی اور نہ ہی وزیر اعظم کی حیثیت سے۔ انھوں نے اگر کچھ صحافیوں کو انٹرویوز دیئے بھی تو ایسے لوگوں کو جو ان سے من پسند سوالات کریں۔ ان سے پوچھیں کہ آپ کے اندر فقیری کہاں سے آگئی۔ آپ اپنے بٹوے میں پیسہ رکھتے ہیں یا نہیں۔ آپ آم چوس کر کھاتے ہیں یا کاٹ کر۔ ان کے اندر اتنی جرأت کبھی نہیں رہی کہ کسی غیر جانبدار اور سچے صحافی کے سوالوں کا سامنا کر سکیں۔ مذکورہ انٹرویو یو ٹیوب پر موجود ہے۔


اب آئیے اس مضمون کا ذکر کرتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ یوم آزادی سے ایک روز قبل یعنی چودہ اگست کو جو کہ پاکستان کا یوم آزادی ہے وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا تھا کہ اب چودھ اگست کو تقسیم کی ہولناکیوں کو یاد کرنے سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ یعنی پاکستان اس دن کو اپنے یوم آزادی کے طور پر مناتا ہے تو منائے لیکن ہم اس دن کو تقسیم کے شکار ہو جانے والے لوگوں اور تقسیم کی وجہ سے ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد کریں گے۔ انھوں نے یہ اعلان تو کیا لیکن یہ اعلان آج تک کبھی نہیں کیا کہ گجرات فسادات کے دوران مسلمانوں پر جو عتاب نازل کیا گیا اور انھیں بھیڑ بکری کی مانند کاٹ دیا گیا اس کو بھی یاد کیا جائے گا۔

چودہ اگست کو تقسیم کی ہولناکیوں سے منسوب کرنے کے پس پردہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو اور وسیع کرنا اور دونوں بڑے فرقوں میں نفرت کی دیوار کھڑی کرنا ہے تاکہ اس سے ووٹوں کی فصل کاٹی جا سکے۔ کرن تھاپر نے اسی کو موضوع بنایا اور ایک ایسی حقیقت آشکار کی جو بہت کم لوگوں کو معلوم تھی۔ انھوں نے جہاں یہ کہا کہ اس اعلان کا مقصد ہندووں اور مسلمانوں میں خلیج پیدا کرکے سیاسی فائدہ اٹھانا ہے وہیں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 1947 میں جموں خطے میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا تھا اور ان پر اتنے مظالم توڑے گئے تھے کہ چند روز کے اندر جموں خطہ جو کہ مسلم اکثریتی خطہ تھا ہندو اکثریتی خطہ بن گیا۔ انھوں نے سوال کیا تھا کہ کیا اس لرزہ خیز واقعہ کو بھی یاد کیا جائے گا۔


انھوں نے مضمون کے آخری تین پیرا گرافوں میں تاریخی حوالوں کے ساتھ لکھا تھا کہ 1947 میں جموں مسلم اکثریتی شہر تھا۔ لیکن ہفتوں تک چلے فرقہ وارانہ فسادات، قتل عام اور نقل مکانی کی وجہ سے وہ ہندو اکثریتی شہر بن گیا۔ تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس دوران ہزاروں افراد یا تو قتل کر دیئے گئے یا انھیں ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ انھوں نے سوال اٹھایا تھا کہ صرف کچھ واقعات کو یاد کرنا اور کچھ کو چھوڑ دینا کہاں کا انصاف ہے۔ انھوں نے اس واقعہ کے ثبوت میں متعدد حوالے دیئے تھے۔ انھوں نے ان حوالوں کی روشنی میں بتایا تھا کہ حکومت کی سرپرستی میں ہندووں اور سکھوں کی جانب سے کیے جانے والے اس مسلم کش فساد کے دوران دو سے پانچ لاکھ مسلمانوں کا یا تو قتل ہوا یا انھیں نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔ انھوں نے سوامی ناتھن ایر کے ایک مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے جو کہ اخبار ٹائمس آف انڈیا میں 2018 میں شائع ہوا تھا، بتایا کہ جموں کے مسلمانوں کا وہ قتل عام پانچ عشروں کے بعد ہونے والی پنڈتوں کی نسلی تطہیر سے کہیں بڑا تھا۔

کرن تھاپر کا کہنا ہے کہ مودی حکومت ان کو پسند نہیں کرتی۔ بی جے پی نے ان کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق سابق مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر، بی جے پی کے سابق جنرل سکریٹری رام مادھو اور بی جے پی کے قومی ترجمان سمبت پاترا نے اس سے قبل ان کو اطلاع دی تھی کہ پارٹی اعلیٰ کمان نے ان کو ہدایت دی ہے کہ وہ کرن تھاپر کے پروگرام میں شریک نہ ہوں۔ ان کے مطابق اس سے قبل انھیں ایشین ایج سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ وہ جو کچھ لکھتے رہے ہیں وہ چھپتا رہا ہے۔ کبھی کوئی سوال نہیں کیا گیا۔ تاہم میں نے اخبار کے ایڈیر سے کہا کہ اگر جموں شہر کے مسلم اکثریتی خطے سے ہندو اکثریتی خطہ بن جانے کے تاریخی واقعہ کی اشاعت پر مالکان کو اعتراض ہے تو میں اخبار کے لیے نہیں لکھوں گا۔


بہر حال کرن تھاپر اکثریت کے زعم میں چلنے والی حکومت کے تازہ شکار ہیں۔ اس سے قبل جانے کتنے سچے صحافیوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ ابھی اور کتنے اس حکومت کے عتاب کا نشانہ بنیں گے کہا نہیں جا سکتا۔ یہ واقعہ جہاں یہ بات آشکار کرتا ہے کہ موجودہ حکومت سچائی کو قبول کرنے کی جرأت نہیں رکھتی وہیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کس طرح موجودہ میڈیا حکومت کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گئی ہے۔ جب تک یہ حکومت رہے گی، میڈیا کی آزادی کا خیال ترک کر دینا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Aug 2021, 9:11 PM