کانپور تشدد: مسلمانوں کا بازار بند کا اعلان، ’کلیدی ملزم‘ ظفر ہاشمی گرفتار

مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے بعد نمازِ جمعہ توہینِ رسالتؐ کے خلاف پرامن احجاج کیا جا رہا تھا، جبکہ ہندو فریق کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی دکانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی گئی تھی

کانپور میں فلیگ مارچ نکالتے پولیس اہلکار اور افسران / آئی اے این ایس
کانپور میں فلیگ مارچ نکالتے پولیس اہلکار اور افسران / آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

کانپور: صنعتی شہر کانپور میں جمعہ، 3 مئی کو ہونے والے تشدد کے بعد حالات کشیدہ ہیں اور یہاں کے بیکن گنج علاقے میں بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ صدر رام ناتھ کووند بھی آج شہر میں موجود ہیں، لہذا سیکورٹی ایجنسیاں پوری طرح سے مستعد ہیں۔ پولیس نے تین ایف آئی آر درج کرتے ہوئے 40 افراد کو نامزد کیا ہے، جبکہ 350 سے زیادہ نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، پہلے یہ تعداد ایک ہزار بتائی جا رہی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حیات ظفر ہاشمی تشدد کے معاملہ میں کلیدی ملزم ہیں اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ظفر ہاشمی مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن سے وابستہ ہیں اور وہ سی اے اے، این آر سی کے خلاف کئے گئے احتجاج میں سرگرم رہے تھے۔ ظفر ہاشمی سے وابستہ مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن سے ہفتہ کے روز کانپور میں بازار بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔


تشدد کے واقعہ پر ہندو اور مسلم فریقوں کے متضاد بیان سامنے آ رہے ہیں۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے بعد نمازِ جمعہ توہینِ رسالت کے خلاف پرامن احجاج کیا جا رہا تھا، جبکہ ہندو فریق کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی دکانوں کو جبراً بند کرانے کی کوشش کی گئی تھی۔

نیوز پورٹل ’آج تک‘ پر شائع تفصیلی رپورٹ کے مطابق ہنگامہ آرائی کی شروعات یتیم خانہ کے علاقے کی اہم سڑک اور بازار سے ہوئی، جس کے بعد ہندو اور مسلمان آمنے سامنے آ گئے اور بحث ہونے لگی۔ اس کے بعد آپسی تصادم کے ساتھ پتھراؤ شروع ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق جب پولیس موقع پر پہنچی تو سڑک پر پتھر بکھرے پڑے تھے، بازار بند ہو چکے تھے اور کئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی جا چکی تھی۔


رپورٹ کے مطابق پولیس نے جب فسادیوں کو منتشر کرنا شروع کیا تو یہ لوگ اندرونی بستی اور تنگ گلیوں میں داخل ہو گئے اور وہاں سے ہی پولیس کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، جس میں کئی پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ پتھراؤ کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ قریبی تھانوں سے بھی پولیس کو طلب کرنا پڑا۔ اس دوران پولیس نے فسادیوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا بھی استعمال کیا۔ پولیس نے رات دیر گئے حالات پر قابو پا لیا۔ اس کے بعد ضلع مجسٹریٹ اور پولس کمشنر نے پوری فورس، پی اے سی اور آر اے ایف کے ساتھ تشدد سے متاثرہ علاقوں میں فلیگ مارچ کیا۔

آج تک نے تشدد کے سلسلہ میں مسلم فریق کا بیان شائع کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کا کہنا ہے ’’ہم پرامن طریقے سے جلوس نکال رہے تھے۔ اس میں بچے بھی شامل تھے۔ اچانک پتھراؤ شروع ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے بچے تھے جن پر پتھراؤ شروع کیا گیا تھا۔ ہم نے ہر کسی سے دکان بند کرنے کو نہیں کہا تھا۔ جس کی مرضی وہ بند کرے یا نا کرے۔ اس کے باوجود لوگوں نے جلوس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ ان بچوں کا کیا قصور تھا جو جلوس نکال رہے تھے؟‘‘


دوسری جانب ہندو فریق کے لوگوں کا الزام ہے ’’جلوس نکال رہے لوگوں نے ہماری دکانیں جبراً بند کرانے کی کوشش کی تھی۔ ہم نے کہا کہ ہماری دکانیں بند نہیں ہوں گی تو وہ اینٹ اور پتھر برسانے لگے۔ پولیس بروقت نہ آتی تو یہ پورا علاقہ ان کے قبضے میں ہوتا۔‘‘

اے ڈی جی یوپی پرشانت کمار کا کہنا ہے ’’تاحال 35 فسادی پکڑے جا چکے ہیں اور ملزمان پر گینگسٹر ایکٹ عائد کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ملزمان کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلے گا۔‘‘ اس کیس میں مولانا محمد جوہر علی فینز ایسوسی ایشن کے حیات ظفر ہاشمی سمیت احتشام کباڑی، ذیشان، عاقب، نظام، عزیز، عامر جاوید اور عمران کالے سمیت 40 افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jun 2022, 3:11 PM