کیرانہ: آئیے واقف ہوتے ہیں راہل گاندھی کی حمایت میں سڑک پر نظر آنے والے عوامی سیلاب کے دلی جذبات سے

مغربی اتر پردیش کے ہر چوپال پر راہل گاندھی اور کیرانہ ہی موضوعِ بحث ہے، آئیے جانتے ہیں راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں زبردست بھیڑ امنڈنے کی وجہ۔

<div class="paragraphs"><p>بھارت جوڑو یاترا</p></div>

بھارت جوڑو یاترا

user

آس محمد کیف

30 سال کے محمد واجد ایم بی اے کر چکے ہیں اور اب کیرانہ میں ہی اپنی دکان چلاتے ہیں۔ واجد کی دکان کی دوری محلہ چھاڑیان سے 3 کلومیٹر ہے۔ 5 جنوری کو جب راہل گاندھی کو کیرانہ سے گزر کر پانی پت جانا تھا تو واجد صبح سے ان کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ راہل گاندھی یہاں تقریباً 4 بجے پہنچے۔ واجد نے راہل گاندھی کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا، ان کا نام پکارا اور مٹھی بند کر زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ راہل گاندھی تک شاید ان کی آواز نہیں پہنچی، لیکن وہ لگاتار اسی کوشش میں لگے رہے۔ واجد بتاتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی لیڈر کے لیے اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔ یہ انتخاب نہیں تھا، اور لیڈروں نے کسی بھی عوام کو یاترا میں شامل ہونے کے لیے زور نہیں لگایا، سبھی خود ہی یاترا میں شامل ہونے پہنچ گئے۔

کیرانہ: آئیے واقف ہوتے ہیں راہل گاندھی کی حمایت میں سڑک پر نظر آنے والے عوامی سیلاب کے دلی جذبات سے

محمد واجد بتاتے ہیں کہ وہ بھی اپنی مرضی سے ہی پہنچے ہیں۔ جب تک راہل گاندھی نہیں آئے تھے تو سبھی لوگ آپس میں ایک دوسرے سے ان کی لوکیشن پتہ کر رہے تھے۔ پورے کیرانہ میں جشن جیسا ماحول تھا۔ واجد کہتے ہیں ’’میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ایسا کوئی گھر نہیں بچا ہوگا جس نے راہل گاندھی کی یاترا میں شرکت نہ کی ہو۔ بھلے ہی کوئی ایک کلو میٹر دور تک چلا ہو، مگر انھوں نے راہل گاندھی کے ساتھ اپنی حمایت کا مظاہرہ ضرور کیا۔‘‘


واجد کا کہنا ہے کہ میں نے ایم بی اے کی پڑھائی کی، لیکن اب میں اپنے کنبہ کی دکان پر ہوں۔ مجھے ایک بہتر ملازمت کی امید تھی اور میرے خواب ٹوٹ گئے۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ راہل گاندھی مجھے ملازمت دلوا دیں گے، لیکن میں راہل گاندھی کے اس لیے ساتھ ہوں کہ کم از کم وہ میرے جیسے نوجوانوں کے بارے میں آواز تو اٹھاتے ہیں۔ اس ایک بات نے مجھے ترغیب دی اور میں ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ میں یہی پیغام دینے کے لیے بھارت جوڑو یاترا میں گیا۔

کیرانہ: آئیے واقف ہوتے ہیں راہل گاندھی کی حمایت میں سڑک پر نظر آنے والے عوامی سیلاب کے دلی جذبات سے

ایلم گاؤں کے سریندر پنوار تو راہل گاندھی کی پدیاترا میں 15 کلومیٹر تک ساتھ چلے۔ وہ عام کسان ہیں۔ ایلم شاملی ضلع کا ایک بڑا قصبہ ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بھارت جوڑو یاترا نے 4 جنوری کو باغپت سے پہنچنے کے بعد شب گزاری کی تھی۔ سریندر پنوار بتاتے ہیں کہ پورے علاقے میں یہ کئی دن سے بحث کا موضوع بننے لگا تھا کہ راہل گاندھی یہاں رات میں رکیں گے۔ ہمارے یہاں آج بھی چوپال کا کلچر ہے۔ شام کے بعد سردی میں لوگ الاؤ جلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ سب جگہ کئی دن سے یہی بات ہو رہی تھی۔ نوجوان موبائل پر بھارت جوڑو یاترا سے جڑی ویڈیوز دیکھ رہے تھے۔ راہل گاندھی کی تقریر سن رہے تھے۔ جو ایشوز راہل گاندھی اٹھاتے ہیں وہ مفاد عامہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی یاترا اچھے مقاصد کے لیے ہے۔ یاترا جب باغپت پہنچی تو گہما گہمی زیادہ بڑھ گئی۔ 10 ہزار سے زیادہ آبادی والے جاٹ اکثریتی آبادی والے ایلم نے یہ طے کیا کہ جب 5 جنوری کو صبح راہل گاندھی ایلم سے اپنی یاترا شروع کریں گے تو ہم سب ان کے ساتھ چلیں گے۔ ایلم کی چیئرپرسن دیپا پنوار سب سے آگے چلیں اور یقین کیجیے کہ شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جس کا کوئی ایک کنبہ ان کے ساتھ نہ چلا ہو۔ ہم نے یہ سچ کا ساتھ دینے کے لیے کیا۔

کیرانہ: آئیے واقف ہوتے ہیں راہل گاندھی کی حمایت میں سڑک پر نظر آنے والے عوامی سیلاب کے دلی جذبات سے

یہ کہانی صرف ایلم کی نہیں ہے۔ شاملی ضلع کے سب سے بڑے گاؤں میں سے ایک گنگیرو کے ہزاروں لوگ صبح ہی ایلم پہنچ گئے۔ گنگیرو اور ایلم میں 8 کلومیٹر کی دوری ہے۔ گنگیرو کے 37 سال کے اسرائیل منصوری بتاتے ہیں کہ پہلے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ پہنچے اور یہ تعداد کافی کم تھی۔ کیونکہ گاؤں کے لوگوں میں ایک تصویر بنی ہوئی ہےکہ لیڈر کوئی کام وقت پر نہیں کرتے۔ اس لیے یہ کوئی نہیں مان رہا تھا کہ راہل گاندھی صبح 6 بجے چل دیں گے۔ جو نوجوان انھیں یوٹیوب پر فالو کر رہے ہیں، وہ مویکلاں کی مثال دے رہے تھے، لیکن ایک رائے نہیں بن رہی تھی۔ مگر جیسے ہی ایلم میں کیمپ کے اندر ہلچل ہوئی تو فون سے سبھی لوگ اطلاع دینے لگے، اور گنگیرو سے عوام پیدل ہی دوڑ پڑے۔ حالانکہ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کاندھلا الرٹ ہو گیا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں سڑک پر استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا۔ کاندھلا شاملی ضلع کا کیرانہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا قصبہ ہے۔ مسلم اکثریت علاقہ ہے، اور اسرائیل بتاتے ہیں کہ ایلم اور کاندھلا جب ساتھ ساتھ چلتا ہے تو بڑی کہانی سامنے آتی ہے۔

کیرانہ: آئیے واقف ہوتے ہیں راہل گاندھی کی حمایت میں سڑک پر نظر آنے والے عوامی سیلاب کے دلی جذبات سے

اسرائیل نے خود کے بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہونے کی وجہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کے یہاں آنے کی کوئی سیاسی وجہ نہیں ہے۔ کانگریس پارٹی کا کوئی سیاسی اثر نہیں ہے اور حال فی الحال کوئی انتخاب بھی نہیں ہے۔ یہاں بیشتر لوگ دوسری سیاسی پارٹیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم یہاں راہل گاندھی کے لیے آئے، ہم راہل گاندھی کے ساتھ ہیں، ان کی سچائی کے ساتھ ہیں، انھیں یہ احساس کرانا چاہتے ہیں کہ حوصلہ بنائے رکھیں۔ ہم ان کی ہمت بننا چاہتے ہیں۔ راہل گاندھی کی لڑائی بالکل جائز ہے۔ وہ جو کہتے ہیں، سچ ہو جاتا ہے۔ انھوں نےم لک کے کئی بڑے مسائل پر پہلے سے ہی متنبہ کیا، اور دیر سویر عوام کی سمجھ میں یہ بات آ گئی۔ ہم پارٹی بازی سے اوپر اٹھ کر راہل گاندھی کے ساتھ ہیں، کیونکہ ان کی نیت بہت اچھی ہے۔

کیرانہ: آئیے واقف ہوتے ہیں راہل گاندھی کی حمایت میں سڑک پر نظر آنے والے عوامی سیلاب کے دلی جذبات سے

کیرانہ کے محلہ چھاڑیان کی تصویروں کو اب دنیا بھر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تقریباً 3 کلومیٹر کے پانی پت والے راستہ کے دونوں طرف بسے اس علاقے میں صرف عوام کے سر ہی دکھائی دے رہے تھے۔ ہزاروں لوگ راہل گاندھی کے ساتھ ایلم سے چل رہے تھے۔ کاندھلا کے بعد یہ بھیڑ کئی گنا بڑھ گئی، لیکن کیرالہ کے محلہ چھاڑیان پہنچتے ہی عوامی سیلاب دکھائی دینے لگا۔ 62 سال کے کیرانہ باشندہ نسیم احمد کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں پہلی بار کسی لیڈر کو اپنی حمایت دینے آئے ہیں۔ وہ کبھی کسی ریلی میں نہیں گئے۔ نسیم احمد کہتے ہیں کہ انھیں راہل گاندھی کا یہ جملہ بہت پسند آیا کہ ’میں نفرت کے شہر میں محبت کی دکان کھول رہا ہوں‘۔ آج ہمارے ملک کو سب سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے۔ بھائی چارے پر مبنی راہل گاندھی کے جذبہ نے مجھے ان کے ساتھ چلنے کے لیے حوصلہ بخشا۔

شاملی کے 54 سالہ رشی لال بھی راہل گاندھی کی حمایت میں یاترا میں شامل ہوئے تھے۔ وہ دو کلومیٹر تک ساتھ چلے۔ رشی لال نے بتایا کہ ایک ایسا نوجوان جس کی فیملی میں 3 وزرائے اعظم رہے ہوں، وہ پورے ملک میں محبت اور بھائی چارے کے لیے 3000 کلومیٹر دور تک پیدل چل رہا ہے، تو اس نوجوان میں ضرور کچھ بڑی بات ہے۔ راہل گاندھی کے بارے میں آج تک جو کچھ بھی مشتہر کیا گیا وہ سب جھوٹ تھا۔ یہ نوجوان تو سچا ہے، اور ملک کا مستقبل ہے۔ یہ سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔