جسٹس ارون مشرا نے 4 ججوں کے آگے گھٹنے ٹیکے!

جج بی ایچ لویا کیس کی سماعت کے بعد آرڈر میں جسٹس ارون مشرا اور جسٹس ایم شانتنا گودر کی بنچ نے تبصرہ کیا کہ کیس کو کسی ’معقول بنچ ‘ کے سامنے پیش کیا جائے۔

بشکریہ سوشل میڈیا
بشکریہ سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جسٹس ارون مشرا نے خود کو جج لویا کے مقدمہ سے الگ کر لیا اور ان کے اس قدم کواحتجاج میں کی گئی چار ججوں کی پریس کانفرنس کی پہلی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کے 4ججوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کی طرف سے حساس معاملات کو اپنی پسند کی بنچ کو سونپنے کا مدہ اٹھایا تھا۔

جس وقت 4 ججوں نے احتجاجاً پریس کانفرنس کی تھی تو پورا ملک حیران رہ گیا تھا کیوں کہ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پریس کانفرنس کے بعد افراتفری کا ماحول تھا اور اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ پا رہا تھا۔ لیکن اب جسٹس ارون مشرا نے خود کو جج لویا کیس سے علیحدہ کرنے کے بعد یہ تصور کیا جا رہا ہے کہ یہ سب ججوں کی پریس کانفرس کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا ہے۔

سی بی آئی کے خصوصی جج بی ایچ لویا کی پر اسرار موت کی جانچ کا مطالبہ کرنے والی دو عرضیوں کو سماعت کے بعد جاری کئے گئے ڈیلی آرڈر میں جسٹس ارون مشرا اور جسٹس ایم شانتنا گودر نے جو تحریر کیا اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جسٹس ارون مشرا نے خود کو اس کیس سے علیحدہ کر لیا ہے۔ سماعت کے بعد جاری کردہ آرڈر میں لکھا ہے:

’’سات دن کے اندر دستاویز ریکارڈ میں جمع کرائے جائیں اور اگر صحیح سمجھا گیا تو ان کی کاپیاں عرضی گزاروں کو بھی دی جائیں گی۔ معاملہ معقول بنچ کے سامنے پیش کیا جائے۔‘‘

جن لوگوں نے عرضی داخل کی ہے ان میں سے ایک سماجی کارکن تحسین پوناوالا اور دوسرے ممبئی کے ایک صحافی سمبھاجی لون ہیں۔ 16 جنووری کو ہوئی سماعت کے دوران مہاراشٹر حکومت کے وکیل ہریش سالوے نے موجودہ بنچ کے سامنے کچھ خفیہ اور حساس دستاویز پیش کئے۔ بنچ نے تبصرہ کرتے ہوئے دستاویزوں کو عرضی گزاروں کو دینے کو کہا اور سماعت ہفتہ بھر کے لئے ملتوی کر دی۔

بشکریہ سپریم کورٹ آف انڈیا ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان
بشکریہ سپریم کورٹ آف انڈیا ڈاٹ این آئی سی ڈاٹ ان
سپریم کورٹ کی طرف سے 16 جنوری کو جاری کئے گئے آرڈر کی کاپی

حالانکہ بنچ کو 16 جنوری کو اس کیس کی سماعت کرنے سے قبل کوئی جھجک نہیں ہوئی تھی اس لئے کہا جا سکاتا ہے کہ آرڈر جاری کرتے وقت ’معقول بنچ ‘ کے سامنے پیش کرنے کا تبصرہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کا تبصرہ عام طور پر تبھی کیا جاتا ہے جب کوئی بنچ خود کو معاملہ سے الگ کرنا چاہتی ہے اور یہ تبصرہ اس بات کا اعتراف بھی ہوتا ہے کہ یہ بنچ سماعت کے لئے معقول نہیں ہے۔ ایسے حالات میں کیس کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور وہ اسے کسی دوسری بنچ کو سونپ دیتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
سپریم کورٹ کے 4 ججوں کی وہ پریس کانفرنس جس سے پورا ملک ہل گیا تھا

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے چاروں ججوں سے چیف جسٹس کی ملاقات، سپریم کورٹ کے کام کاج کو لے کر تمام مدوں پر بات چیت

دریں اثنا یہ اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ جب سوموار کو سپریم کورٹ میں کام کاج شروع ہونے سے قبل روایت کے مطابق جب جج حضرات کی چائے پر ملاقات ہوئی تو جسٹس مشرا اپنے ساتھی ججوں جسٹس جے چیلمیشور، جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکر اور جسٹس کورین جوزف کے سامنے جذباتی ہو گئے تھے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ صحت خراب ہونے کے باوجود وہ اپنا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں اور ان کا نام بے وجہ اچھالا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس چیلمیشور دونوں نے اہیں دلاسا دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے کام کاج پر نظر رکھنے والےماہرین کا خیال ہے کہ شاید جذبات کی رو میں بہہ کر ہی جسٹس مشرا نے خود کو جج لویا کے کیس کی سماعت سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Jan 2018, 9:25 AM