’جناح، کانگریس اور ماؤنٹ بیٹن تھے تقسیم ہند کے ذمہ دار‘، این سی ای آر ٹی نے تیار کیے 2 خاص ماڈیول، کانگریس حملہ آور

پون کھیڑا نے کہا کہ ’’ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ کی جگل بندی کی وجہ سے ملک کی تقسیم ہوئی ہے۔ تاریخ کا اگر کوئی سب سے بڑا ویلن ہے تو وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہے۔‘‘

سوشل میڈیا
i
user

قومی آواز بیورو

ہندوستانی حکومت نے 14 اگست کو بطور ’تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگار دن‘ قرار دیا ہے۔ اس دن کا مقصد طلبہ اور معاشرے کو یہ یاد دلانا ہے کہ ہندوستان-پاکستان کی تقسیم (1947) نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر کتنا گہرا اثر ڈالا ہے۔ این سی ای آر ٹی کے ذریعہ ’تقسیم کی ہولناکیوں کا یادگار دن‘ پر ایک خاص ماڈیول کلاس 8-6، یعنی مڈل اور سیکنڈری کلاسوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کے بچوں کو بھی پڑھایا جائے گا کہ آزادی کے وقت 1947 میں تقسیم کی وجہ سے لوگوں کو کن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا اور ہمیں اس سے کیا سیکھنا چاہیے۔ این سی آر ٹی کے خاص ماڈیول میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کسی ایک شخص کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس کے لیے 3 لوگ یا فریق ذمہ دار تھے:

1. محمد علی جناح، جنہوں نے تقسیم کا مطالبہ کیا۔

2. کانگریس، جس نے تقسیم کو قبول کیا۔

3. لارڈ ماؤنٹ بیٹن، جنھوں نے اسے نافذ کیا۔

این سی آر ٹی کے اس ماڈیول پر کانگریس نے سخت اعتراض کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان اور سینئر لیڈر پون کھیڑا نے اس خاص ماڈیول سے متعلق میڈیا کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ کی جگل بندی کی وجہ سے یہ تقسیم ہوئی ہے۔ تاریخ کا اگر کوئی سب سے بڑا ویلن ہے تو وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہے۔ نسلیں ان کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔ مخبری کرتے ہوئے انہوں نے اپنے 25 سال اس وقت گزارے، اور اس مخبری میں جگل بندی کی مسلم لیگ کے ساتھ اور جناح کے ساتھ۔ لال کرشن اڈوانی تو جناح کے مزار پر سجدۂ شکر ادا کرنے گئے تھے۔ کیا تاریخ کے صفحات سے اس کو ہٹا سکتے ہیں۔‘‘


این سی آر ٹی ماڈیول کے مطابق تقسیم ہند غلط سوچ کی وجہ سے ہوئی۔ مسلم لیگ نے 1940 میں لاہور میں ایک اجلاس منعقد کیا، وہاں جناح نے کہا کہ ہندو اور مسلمان مختلف مذہب، رسوم و رواج، ادب اور ہیرو والی برادریاں ہیں۔ برطانوی حکومت چاہتی تھی کہ ہندوستان آزاد ہو لیکن تقسیم نہ ہو۔ انہوں نے ایک منصوبہ بنایا تھا جس میں ہندوستان کو ڈومینین کا درجہ دینے کی بات تھی۔ یعنی انگریز بادشاہ صرف نام کا ہندوستان کا سربراہ رہتا لیکن ملک کا اصل انتظام ہندوستانیوں کے ہاتھ میں ہوتا۔ ساتھ ہی مختلف صوبوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اس ڈومینین کا حصہ بنیں یا نہ بنیں، لیکن کانگریس نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔

این سی ای آر ٹی کے اس خصوصی ماڈیول میں بتایا گیا ہے کہ آزادی کے وقت ملک کے بڑے لیڈران کی تقسیم کے بارے میں مختلف رائے تھی۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل شروع میں تقسیم کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے اسے زبردستی لی جانے والی دوا کی طرح قبول کر لیا۔ جولائی 1947 میں بمبئی میں ہونے والی ایک میٹنگ میں انہوں نے کہا کہ ’’ملک میدان جنگ بن چکا ہے، دونوں برادریاں اب ایک ساتھ امن سے نہیں رہ سکتیں، خانہ جنگی سے تقسیم بہتر ہے۔‘‘


ماڈیول کے مطابق لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ایک بہت بڑی غلطی کی۔ انہوں نے اقتدار کی منتقلی کی تاریخ جون 1948 سے گھٹا کر اگست 1947 کر دی۔ یعنی پورے کام کے لیے صرف 5 ہفتے ہی ملے۔ سرحدوں کی تقسیم بھی جلد بازی میں ہوئی۔ صورتحال یہ تھی کہ 15 اگست 1947 کے 2 دن بعد تک پنجاب کے لاکھوں لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ وہ ہندوستان میں ہیں یا پاکستان میں۔ اس جلد بازی کو بہت بڑی لاپرواہی تصور کیا گیا۔

بہرحال، این سی ای آر ٹی کے اس ماڈیول کی تنقید کانگریس کے علاوہ عآپ اور ایم آئی ایم آئی ایم نے بھی کی ہے۔ عآپ لیڈر سوربھ بھاردواج کا کہنا ہے کہ ’’آر ایس ایس نے ہمیشہ دو قومی نظریہ کی حمایت کی تھی۔ ساورکر نے بھی اپنی کتاب میں یہ بات کہی تھی۔ جناح، آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا سبھی ہندوستان کی تقسیم کے حق میں تھے۔ صرف کانگریس اور جناح کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے۔ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا بھی تقسیم کے لیے اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔‘‘ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے کہا کہ ’’تاریخ میں جھوٹ بولا جاتا ہے اور تقسیم کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈالی جاتی ہے۔ جو لوگ ملک چھوڑ کر چلے گئے، وہ چلے گئے۔ لیکن جو مسلمان یہاں رہ گئے وہ ملک کے وفادار ہیں۔‘‘ ساتھ ہی اویسی نے سوال اٹھایا کہ ’’اگر این سی ای آر ٹی تبدیلیاں کر رہی ہے، تو اس میں آر ایس ایس کے ذریعہ مانگی گئی معافی کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کو اقتدار میں آنے کے بعد تاریخ بدلنے کی عادت ہو گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔