جے رام رمیش کا مودی کی تقریر پر حملہ، ’کھوکھلے نعرے، غلط دعوے اور آزادیٔ ہند کا سیاسی استعمال‘

جے رام رمیش نے مودی کی یومِ آزادی تقریر کو پرانا، کھوکھلا اور متنازع قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ وزیر اعظم نے غلط دعوے، انتخابی ہیرا پھیری اور آر ایس ایس کو خوش کرنے کے لیے پلیٹ فارم استعمال کیا

<div class="paragraphs"><p>جے رام رمیش / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے وزیر اعظم نریندر مودی کی لال قلعہ کی فصیل سے کی گئی یومِ آزادی کی تقریر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایکس پر جاری بیان میں انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر پرانے، دوغلے، بے جان اور تشویش ناک نکات کا مجموعہ تھی، جس میں نہ کوئی نئی سوچ نظر آئی اور نہ ہی عوامی مسائل کا سنجیدہ حل۔

جے رام رمیش کے مطابق مودی نے پھر سے وہی پرانے نعرے دہرائے، جیسے ’وکسِت بھارت‘، ’آتم نربھر بھارت‘ اور ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘، جو برسوں سے سننے کو مل رہے ہیں مگر ان کے نتائج کا کوئی قابلِ ذکر ثبوت موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میڈ اِن انڈیا‘ سیمی کنڈکٹر چِپ بنانے کا وعدہ بھی کئی بار کیا گیا مگر عمل درآمد صفر رہا۔ اس ضمن میں انہوں نے مودی پر ’بڑا جھوٹ‘ بولنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کا پہلا سیمی کنڈکٹر کمپلیکس 1980 کی دہائی کے اوائل میں چنڈی گڑھ میں قائم کیا گیا تھا۔

کسانوں کے تحفظ سے متعلق مودی کے بیانات کو بھی انہوں نے بے معنی قرار دیا۔ جے رام رمیش نے کہا کہ تین سیاہ زرعی قوانین نافذ کرنے کی کوشش، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی ضمانت نہ دینا، ایم ایس پی کو لاگتِ کاشت سے 50 فیصد زائد مقرر نہ کرنا اور کسانوں کے قرض معاف نہ کرنا، سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ وزیر اعظم کے وعدے کھوکھلے ہیں۔


روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے وعدوں کو بھی انہوں نے ’رسمی بیان‘ قرار دیا جو کسی عملی روڈ میپ کے بغیر دہرائے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق مودی کی تقریر میں اتحاد، شمولیت اور جمہوریت کی باتیں محض زبانی جمع خرچ ہیں، کیونکہ انہی کے دور میں انتخابی کمیشن سمیت اہم آئینی ادارے زوال کا شکار ہوئے۔

جے رام رمیش نے کہا کہ وزیر اعظم اب تک اپوزیشن لیڈر کی جانب سے اٹھائے گئے انتخابی نظام کی شفافیت سے متعلق بنیادی سوالات کا جواب نہیں دے پائے اور بہار میں اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) کے ذریعے لاکھوں ووٹروں کو فہرست سے نکالنے کا عمل جاری ہے۔ وفاقی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے دعووں پر انہوں نے کہا کہ مرکز اپوزیشن کی حکومتوں کو مسلسل کمزور، نظرانداز اور بعض اوقات ختم کر رہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ یومِ آزادی کو امید، سچائی اور وژن کا دن ہونا چاہیے، مگر مودی کی تقریر خود ستائشی اور چُنی ہوئی کہانیوں کا ملغوبہ تھی، جس میں معاشی بحران، بے روزگاری اور بڑھتی عدم مساوات جیسے سنگین مسائل کا کوئی اعتراف نہیں کیا گیا۔

جے رام رمیش کے مطابق تقریر کا سب سے تشویش ناک پہلو لال قلعہ کی فصیل سے آر ایس ایس کا نام لینا تھا، جو آئینی اور سیکولر جمہوریہ کی روح کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قدم صرف آر ایس ایس کو خوش کرنے کی ایک بے صبرانہ کوشش ہے، خاص طور پر اس لیے کہ وزیر اعظم اگلے ماہ اپنی 75ویں سالگرہ سے قبل اس تنظیم کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔


ان کے مطابق 4 جون 2024 کے انتخابات کے بعد مودی کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور اب وہ اپنی مدت میں توسیع کے لیے مکمل طور پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی مرضی پر منحصر ہیں۔ جے رام رمیش نے کہا کہ یومِ آزادی جیسے قومی موقع کو ذاتی اور تنظیمی فائدے کے لیے استعمال کرنا جمہوری اقدار کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اپنے تبصرے کے آخر میں جے رام رمیش نے طنزیہ کہا، ’’آج وزیر اعظم ٹائر (تھکے ہوئے) لگ رہے تھے۔ جلد ہی وہ ریٹائر (سبکدوش) بھی ہو جائیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔