جگدیپ دھنکھڑ کی غیر معمولی خاموشی پر جے رام رمیش کی تشویش، کہا- ’ملک ان کے بیان کا منتظر‘

کانگریس نے سابق نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کی 50 دنوں کی خاموشی پر سوال اٹھایا ہے۔ جے رام رمیش نے کہا کہ ان کے غیر متوقع استعفے کے بعد ملک ان کی وضاحت اور بیان کا منتظر ہے

<div class="paragraphs"><p>جے رام رمیش / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: نائب صدر کے انتخاب کے دوران کانگریس نے سابق نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کی طویل خاموشی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ملک ان کے بیان کا منتظر ہے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے منگل کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ جگدیپ دھنکھڑ نے پچھلے 50 دنوں سے غیر معمولی طور پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، جو ان کے مزاج اور سیاسی رویے کے برخلاف ہے۔

جے رام رمیش نے لکھا، ’’آج جب نائب صدر کے نئے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہو رہی ہے، ملک اس بات کی توقع کر رہا ہے کہ دھنکھڑ صاحب اپنے غیر متوقع اور اچانک استعفے پر لب کشائی کریں گے۔ ان کا استعفیٰ پارلیمانی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ رہا ہے، کیونکہ ان کا دورِ کار ابھی تقریباً دو سال باقی تھا۔‘‘

انہوں نے یاد دلایا کہ دھنکھڑ نے اپنے عہدے سے علیحدگی سے قبل کسانوں کے ساتھ حکومت کے رویے اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے رویے پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ جے رام رمیش کے مطابق، ’’انہوں نے کسانوں کی مسلسل نظراندازی اور حکومت کے تکبر سے پیدا ہونے والے خطرات پر اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ ایسے میں اب ان کا خاموش رہنا اور بھی معنی خیز ہو جاتا ہے۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ پارلیمنٹ کے حالیہ مانسون اجلاس کے دوران جگدیپ دھنکھڑ نے صحت کی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے استعفے کے باعث نائب صدر کے انتخاب کی نوبت آئی۔ موجودہ حالات میں حکمران قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) نے سی پی رادھا کرشنن کو اپنا امیدوار بنایا ہے جبکہ اپوزیشن کے انڈیا اتحاد کی جانب سے بی سدرشن ریڈی امیدوار ہیں۔

انتخابی عمل صبح دس بجے شروع ہوا اور شام پانچ بجے مکمل ہو جائے گا۔ نتائج کا اعلان دیر شام تک متوقع ہے۔ نائب صدر کے انتخاب میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اراکین ووٹ دیتے ہیں۔ اس مرتبہ ووٹنگ پارلیمنٹ ہاؤس کے کمرہ نمبر ایف-101، وسبھاون میں ہو رہی ہے۔

انتخابی اعداد و شمار کے لحاظ سے راجیہ سبھا کے 233 منتخب اور 12 نامزد اراکین، جبکہ لوک سبھا کے 543 منتخب اراکین اس عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ اگرچہ فی الحال ایوان میں کچھ نشستیں خالی ہیں، لیکن مجموعی طور پر 781 اراکین اس انتخابی عمل میں ووٹ دینے کے اہل ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق، دھنکھڑ کا استعفیٰ اور اس کے بعد ان کی مکمل خاموشی ملک کی سیاست میں ایک نیا سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اپوزیشن کا ماننا ہے کہ وہ جلد یا بدیر اپنی خاموشی توڑ کر حقائق بیان کریں گے، جبکہ حکومت کے حلقوں میں بھی اس معاملے پر تجسس پایا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔