’یہ سماجی ایشو، اسے پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے‘، ہم جنس پرستوں کی شادی سے متعلق سپریم کورٹ میں مرکز کا بیان

مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل نے عدالت عظمیٰ میں دلیل پیش کی کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو منظوری دینے سے کئی قوانین متاثر ہوں گے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ہم جنس پرستوں یعنی یکساں جنس کے ساتھ شادی کے معاملے میں آج مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سماجی ایشو ہے اور عدالت کو چاہیے کہ یہ معاملہ غور و خوض کے لیے پارلیمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ نے ان ایشوز پر بحث کی ہے اور قوانین بھی بنائے ہیں۔

مرکز نے عدالت عظمیٰ سے کہا کہ عرضی دہندہ کو شادی کے لیے سماجی منظوری چاہیے۔ اس لیے یہ ایک مخصوص کلاس کا مسئلہ ہے۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ اس کے بہت سے اثرات ہوں گے، جو صرف سماجی نہیں ہے۔ آپ ہماری دلیلوں پر توجہ دیں اور اسے سرے سے خارج نہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف شادی کی منظوری سے متعلق نہیں ہے۔ اس ایشو کو لے کر بحث کی ضرورت ہے اور اس بحث میں ہر طبقہ کو شامل ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو پہلی بار عدالت کے سامنے آیا ہے۔ اسے پہلے پارلیمنٹ کے سامنے ہونا چاہیے۔


سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کے سامنے کہا کہ کئی قوانین پر کئی طرح کے ایسے اثرات ہوں گے جس کی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے اس ایشو پر ریاست کے اسمبلیوں، شہری سماج گروپوں میں بحث کی ضرورت ہے۔ حکومت کی طرف سے کورٹ میں یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادی کو منظوری دینے سے کئی قوانین متاثر ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔