ہندوستان کی فلسطین پر خاموشی انسانی اقدار سے دستبرداری کے مترادف: سونیا گاندھی
سونیا گاندھی نے فلسطین پر خاموشی کو انسانی اقدار سے دستبرداری قرار دیتے ہوئے مودی حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ فلسطین کے لیے قیادت کا مظاہرہ کرنا چاہئے لیکن اس کی پالیسی ذاتی دوستی پر مبنی ہے

ہندوستان کی خاموشی اور فلسطین سے دوری پر سونیا گاندھی نے ایک سخت تنقیدی مضمون تحریر کیا ہے، جو ’دی ہندو‘ اخبار میں شائع ہوا ہے۔ کانگریس پارلیمانی پارٹی کی چیئرپرسن سونیا گاندھی نے مودی حکومت کے فلسطین کے مسئلے پر رویے کو ’گہری خاموشی‘ اور ’انسانیت اور اخلاق سے دستبرداری‘ قرار دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ ہندوستان کو فلسطین کے لیے قیادت کا مظاہرہ کرنا چاہیے، جو اب انصاف، شناخت، وقار اور انسانی حقوق کی جنگ بن چکا ہے۔
سونیا گاندھی نے اپنے مضمون میں کہا کہ ہندوستان کی عالمی سطح پر حیثیت ایک فرد کی ذاتی عزت افزائی یا تاریخی کارناموں پر منحصر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے فرانس، برطانیہ، کینیڈا، پرتگال اور آسٹریلیا کا حوالہ دیا، جنہوں نے حال ہی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا، جو فلسطین کے طویل عرصے سے پریشان عوام کی جائز خواہشوں کی تکمیل کا پہلا قدم ہے۔
سونیا گاندھی نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے 193 میں سے 150 سے زائد ممالک نے اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے، جبکہ ہندوستان نے 18 نومبر 1988 کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا، جبکہ وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی حمایت کرتا رہا ہے۔
انہوں نے تاریخی مثالیں بھی پیش کیں، جیسے کہ ہندوستان نے آزادی سے قبل جنوبی افریقہ میں ایپارٹائڈ کے خلاف آواز اٹھائی اور 1954-62 میں الجیریا کی آزادی کی جدوجہد میں سب سے مضبوط حمایت کی۔ 1971 میں ہندوستان نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں نسل کشی روکنے کے لیے مؤثر کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل-فلسطین کے حساس مسئلے پر بھی ہندوستان نے طویل عرصے سے امن اور انسانی حقوق کے تحفظ پر مبنی اصولوں کی پابندی کی ہے۔
تاہم، گاندھی نے مودی حکومت پر تنقید کی کہ وہ اس مسئلے پر خاموش رہ کر اپنی ذمہ داری سے فرار اختیار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیلی شہریوں پر وحشیانہ حملوں کے بعد اسرائیل کا ردعمل نسل کشی کے مترادف رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 55,000 سے زائد فلسطینی شہری، جن میں 17,000 بچے شامل ہیں، ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ کا رہائشی، تعلیمی اور صحت کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، جبکہ زراعت اور صنعت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے خوراک، ادویات اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل کو روک کر غزہ کے لوگوں کو قحط جیسے حالات میں دھکیل دیا ہے۔
سونیا گاندھی نے کہا کہ کئی ممالک کی جانب سے فلسطین کو خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ خوش آئند اور طویل انتظار کے بعد کا اقدام ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ خاموشی غیر جانبداری نہیں، بلکہ ذمہ داری سے گریز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے 21 ستمبر 2025 کو فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا، جو ان کی غیر جانبدار خارجہ پالیسی سے ہٹ کر ایک بڑا اقدام ہے، خاص طور پر جب کہ امریکہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل کی حمایت کی ہے۔
انہوں نے مودی حکومت پر الزام لگایا کہ اس کی پالیسی وزیراعظم نریندر مودی اور اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے ذاتی تعلقات پر مبنی ہے، جو ہندوستان کے آئینی اقدار یا اسٹریٹجک مفادات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ذاتی سفارتکاری قابل عمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا رہنما اصول بن سکتی ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ امریکہ جیسے ممالک میں اسی طرز کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور حال ہی میں اس کی بے عزتی ہوئی ہے۔
سونیا گاندھی نے افسوس ظاہر کیا کہ دو ہفتے قبل ہندوستان نے نئی دہلی میں اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدہ پر دستخط کیے اور اس کے متنازعہ دائیں بازو کے وزیر خزانہ، جو فلسطینی کمیونٹیز کے خلاف تشدد کی ترغیب دیتے رہے ہیں، کی میزبانی کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام عالمی تنقید کا نشانہ بنا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہندوستان کو فلسطین کے مسئلے کو صرف خارجہ پالیسی کے طور پر نہیں، بلکہ اپنے اخلاقی اور تہذیبی ورثے کے امتحان کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ فلسطینیوں نے دہائیوں سے جلاوطنی، طویل قبضے، آباد کاری کے پھیلاؤ، نقل و حرکت پر پابندیاں اور انسانی، سیاسی اور شہری حقوق پر حملوں کا سامنا کیا ہے۔ ان کی حالت ہندوستان کے نوآبادیاتی دور کی جدوجہد سے ملتی جلتی ہے، جہاں ایک قوم کو اس کے حقوق اور خود مختاری سے محروم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان فلسطین کے ساتھ تاریخی ہمدردی اور اصولوں پر مبنی عمل کا پابند ہے۔