غزہ پر اسرائیلی بربریت، وزیر اعظم مودی کی خاموشی باعثِ شرم: سونیا گاندھی کا سخت مضمون
سونیا گاندھی نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیتے ہوئے مودی حکومت کی خاموشی کو قابلِ مذمت بتایا۔ انہوں نے فوری جنگ بندی، انصاف اور فلسطینیوں کی حمایت پر زور دیا

غزہ بحران / Getty Images
اسرائیل میں 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے ہاتھوں بے گناہ مرد، عورتوں اور بچوں پر کیے گئے وحشیانہ حملوں یا ان کے بعد اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنائے رکھنے کو کوئی بھی درست قرار نہیں دے سکتا۔ ان کی بار بار اور بغیر کسی شرط کے مذمت ہونی چاہیے لیکن ایک انسان اور عالمی برادری کے رکن کے طور پر یہ تسلیم کرنا ہماری ذمہ داری ہے کہ غزہ کے عوام پر اسرائیلی حکومت کی جوابی کارروائی صرف شدید نہیں بلکہ مجرمانہ حد تک سفاک رہی ہے۔
گزشتہ دو برسوں میں 55000 سے زائد فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 17000 بچے شامل ہیں۔ غزہ میں رہائشی عمارتیں، اسپتال اور دیگر بنیادی سہولیات والے ڈھانچے جان بوجھ کر شدید فضائی بمباری کے ذریعے تباہ کر دیے گئے۔ اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک کے واقعات دل دہلا دینے والے ہیں اور حالیہ مہینوں میں صورت حال اور زیادہ اندوہناک ہو چکی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح انسانی امداد کو بھی ایک ظالمانہ حکمت عملی کے طور پر ہتھیار بنا دیا گیا۔
اسرائیلی افواج نے غزہ کی مکمل فوجی ناکہ بندی کر کے دوا، خوراک اور ایندھن کی فراہمی کو دانستہ طور پر روکا ہے۔ عام شہریوں کا قتل عام اور انفراسٹرکچر کی اندھا دھند تباہی ایک انسانی المیہ کو جنم دے چکی ہے، جو ناکہ بندی کے باعث اور زیادہ بھیانک ہو چکا ہے۔ بھوک سے موت کی طرف دھکیلنا یقیناً انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اس تباہی کے بیچ اسرائیل نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی جانب سے آنے والی امداد کو یا تو رد کر دیا یا روک دیا۔ انسانیت کے تمام اصولوں کی توہین کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے ان افراد پر بھی گولیاں برسائیں جو اپنے اہلِ خانہ کے لیے خوراک لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس پر شدید تشویش ظاہر کی ہے اور خود اسرائیلی افواج کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔
ماہرین کے مطابق غزہ میں اسرائیل کا فوجی قبضہ دراصل نسل کشی کے مترادف ہے، جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے ختم کرنا ہے۔ اس کا انداز اور اثرات 1948 کی ’نکبہ‘ کی یاد دلاتے ہیں، جب فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ یہ بربریت صرف نوآبادیاتی ذہنیت کا نہیں بلکہ چند لالچی رئیل اسٹیٹ مافیا کے مفادات کی تکمیل کا بھی ذریعہ ہے۔
بدقسمتی سے غزہ کا بحران عالمی نظام کی سنگین کمزوریوں کو بے نقاب کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا لیکن اسے نظر انداز کر دیا گیا۔ سلامتی کونسل بھی اسرائیل پر پابندیاں لگانے میں ناکام رہی ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف نے 26 جنوری 2024 کو اسرائیل کو نسل کشی سے باز رہنے اور شہریوں تک ضروری امداد پہنچانے کا حکم دیا مگر اسے بھی نظرانداز کر دیا گیا۔
امریکہ کی جانب سے دیے گئے براہِ راست یا بالواسطہ تعاون نے اسرائیل کو ان اقدامات پر نہ صرف اُکسایا بلکہ انہیں ممکن بھی بنایا۔ جب بین الاقوامی قوانین اور ادارے مفلوج ہو جائیں، تو غزہ کے عوام کے لیے آواز بلند کرنا اب دیگر ممالک کی ذمہ داری بن چکی ہے۔ جنوبی افریقہ نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو عالمی عدالت لے گیا اور اب برازیل بھی اسی راہ پر ہے۔
فرانس نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ برطانیہ اور کینیڈا نے اسرائیلی رہنماؤں پر پابندیاں لگائیں۔ خود اسرائیل کے اندر بھی اس جارحیت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ایک سابق وزیرِاعظم نے غزہ میں جنگی جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ ایسی عالمی بیداری کے درمیان یہ قومی شرم کی بات ہے کہ ہندوستان خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
ہندوستان ہمیشہ عالمی انصاف کی علامت رہا ہے۔ اس نے نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف عالمی تحریکوں کو تحریک دی، سرد جنگ میں سامراجیت کے خلاف آواز بلند کی اور جنوبی افریقہ میں رنگ کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف عالمی مہم کی قیادت کی۔ آج جب بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے تو ہندوستان کا اپنے ان اصولوں سے انحراف کرنا ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک داغ ہے اور ہماری آئینی قدروں سے غداری ہے۔
آئین کے رہنما اصول حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی امن کو فروغ دے، قوموں کے درمیان انصاف پر مبنی تعلقات قائم رکھے اور عالمی قوانین و معاہدوں کا احترام کرے۔ اسرائیل کی جانب سے ان تمام اقدار کی خلاف ورزی اور ہماری حکومت کی خاموشی ہمارے آئینی فرائض کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ہندوستان ہمیشہ دو ریاستی حل اور اسرائیل-فلسطین کے درمیان منصفانہ امن کا حامی رہا ہے۔ 1974 میں اندرا گاندھی کی قیادت میں ہندوستان پہلا غیر عرب ملک بنا جس نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کا جائز نمائندہ تسلیم کیا۔ 1988 میں ہندوستان نے فلسطین کو باضابطہ تسلیم کرنے والے ابتدائی ممالک میں جگہ پائی۔
غزہ میں اسرائیلی مظالم کے دوران وزیرِاعظم مودی کی شرمناک خاموشی انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ اخلاقی بزدلی کی انتہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ ہندوستان کی تاریخی وراثت کی نمائندگی کرتے ہوئے انصاف اور انسانیت کی مضبوط آواز بنیں۔ آج جب یہ مسئلہ پوری انسانیت کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے، تو گلوبل ساؤتھ ایک بار پھر ہندوستان کی قیادت کا منتظر ہے۔
مآخذ: روزنامہ دینک جاگرن (اصل مضمون ہندی میں شائع ہوا)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔