ہریانہ میں ہوا ہندوستان کا سب سے بڑا ’روزگار گھوٹالہ‘، کانگریس نے کیا جانچ کا مطالبہ

کانگریس ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہریانہ کا بھرتی گھوٹالہ ویاپم سے بھی بڑا گھوٹالہ ہے، بات اب پرچی-خرچی سے آگے اٹیچی تک پہنچ گئی ہے۔

رندیپ سنگھ سرجے والا، تصویر یو این آئی
رندیپ سنگھ سرجے والا، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

بی جے پی حکمراں ہریانہ میں بھرتی گھوٹالہ کو لے کر کانگریس لیڈر رندیپ سنگھ سرجے والا نے کھٹر حکومت پر زوردار حملہ کیا ہے۔ سرجے والا نے فوری اثر سے ہریانہ پبلک سروس کمیشن اور ہریانہ ایمپلائی سلکشن کمیشن کو برخاست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے ہائی کورٹ چیف جسٹس کی صدارت میں اس معاملے کی جانچ کیے جانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ چنڈی گڑھ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سرجے والا نے کہا کہ صرف ایچ سی ایس افسر ایسا گھوٹالہ نہیں کر سکتا۔ اس میں بڑے افسران اور لیڈران بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ہریانہ حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کانگریس ترجمان نے کہا کہ کمیشن میں سارا کام نجی کمپنیوں سے کرایا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ بند کیا جانا چاہیے اور کمیشن کی از سر نو تشکیل ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ایک ماہرین کا پینل بھی تشکیل دیا جانا چاہیے جو ملازمتوں کے معاملے میں اصلاح کو لے کر صلاح و مشورہ دے سکے۔

رندیپ سرجے والا نے ہریانہ میں ہوئے بھرتی گھوٹالے کو مدھیہ پردیش کے ’ویاپم گھوٹالہ‘ سے بھی بڑا گھوٹالہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ پرچی-خرچی سے بڑھ کر اٹیچی تک پہنچ گیا ہے۔ ایچ پی ایس سی (ہریانہ پبلک سروس کمیشن) اب ہریانہ پوسٹ سیل کاؤنٹر بن گیا ہے۔ 32 سے زیادہ پیپر لیک اور بھرتی گھوٹالے کا انکشاف کر ہم میڈیا کے ذریعہ سے عوام کے سامنے چیزوں کو رکھتے رہے، لیکن حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ کانگریس ترجمان نے کہا کہ بھرتی گھوٹالہ ملک کا سب سے بڑا روزگار گھوٹالہ ہے۔ وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر تین جملے اچھالتے ہیں جس میں شفافیت، اہلیت اور بغیر پرچی-خرچی شامل ہے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ سے 7 نکات پر مبنی سوال بھی پوچھا اور جواب کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے پوچھا ہے کہ ایچ پی ایس سی کو ہریانہ پوسٹ سیل کاؤنٹر کیوں بنایا، جہاں ہر بھرتی کی قیمت ہریانہ میں طے کی گئی ہے۔ سرجے والا کہتے ہیں کہ انل ناگر حکومت کا پسندیدہ افسر ہے جو کئی اہم عہدوں پر رہا ہے۔ منوہر لال نے ایچ ایس ایس سی اور ایچ پی ایس سی کی نجکاری کی ہے، جہاں نجی کمپنیاں پیپر بنانے سے لے کر ریزلٹ تک کا کام کر رہی ہیں۔ اگر نجی کمپنیوں کو یہ کام کرنا ہے تو حکومت کی ضرورت کیا ہے۔ ڈینٹل سرجن بھرتی کے لیے 25-25 لاکھ روپے لیے جا رہے ہیں، جن میں 8 کا معاملہ ایچ سی ایس نے بھی قبول کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی کتنی بھرتیاں کی گئیں اور اس کا پیسہ کہاں کہاں گیا۔


کانگریس لیڈر نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ جتنی او ایم آر شیٹ کے بارے میں انل ناگر نے قبول کیا، وہ برآمد نہیں ہوئی تو کہاں گئیں۔ اسٹرانگ روم کی ذمہ داری کسی سینئر آئی اے ایس کو دینے کی جگہ چار سال پرانے ایچ سی ایس کو دی گئی۔ منفی مارکنگ ہونے کے باوجود بھی 68.5 فیصد میرٹ آئی۔ کیا یہ چار سال پرانا ڈپٹی سکریٹری سطح کا افسر کر سکتا ہے۔ سرجے والا نے سوال اٹھایا کہ کیا سینئر افسر اور حکومت کی سانٹھ گانٹھ کے بغیر یہ ہو سکتا ہے؟ ایچ پی ایس سی میں جہاں میں یا وزیر اعلیٰ صاحب بھی نہیں جا سکتے، وہاں ملازمت فروخت کرنے والے گروہ کیسے پہنچے۔ او ایم آر شیٹ لینے اور ہیرا پھیری کرنے اور اس دوران سی آئی ڈی اور چیئرمین نے کیوں آنکھوں کو بند کر رکھا۔ وجلنس کے مطابق جسبیر ملک کو آن لائن ایپلی کیشن اسکیننگ کا ٹھیکہ ملا۔ وہی امیدواروں کو لے کر آ رہا تھا۔ کھٹر حکومت جب بھی رنگے ہاتھوں پکڑی جاتی ہے تب کچھ دن خبریں چلواتی ہے، پھر لیپاپوتی کر لیتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */