’’دارالعلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کا ذکر کئے بغیر آزادیٔ ہند کی تاریخ نامکمل‘‘

آزادی کی تاریخ 1857سے نہیں بلکہ 1799ء میں اس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔

فائل تصویر آئی اے این ایس 
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ ملک کی آزادی تاریخ دارالعلوم دیوبند اورجمعۃ علماء ہندکا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ یہ بات انہوں نے یوم جمہوریہ کے موقع پر جاری ایک مضمون میں کہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جدوجہد آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخ ہندوستان کے علمائے کرام کے ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، خواہ وہ ملی یا قومی قیادت و سیادت ہو یا وطن کی آزادی کے لئے میدان جنگ، کسی تحریک کی قیادت ہو یا پھر کسی مصیبت اور پریشانی کے وقت میں لوگوں کی مدد و غمگساری، ہر میدان میں علماء نے اہم کارنامے انجام دئے ہیں اور حکومتِ وقت کے سامنے سینہ سپر ہوکر حق اور سچ بات رکھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک بڑی تاریخی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزاد ی کی تحریک علماء اور مسلمانوں نے شروع کی تھی اور یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایا جب اس بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت علماء نے ہی بلند کیا تھا اور جنگ آزادی کا صوربھی انہوں نے ہی پھونکا تھا۔


مولانا نے جنگ آزادی کی تاریخ سے لاعلمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے بے شمار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی پہلی آزادی کی لڑائی 1857ء میں لڑی گئی تھی، لیکن یہ بات اپنی تاریخ اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ آزادی کی تاریخ 1857سے نہیں بلکہ 1799ء میں اس وقت شروع ہوئی جب سلطان ٹیپو شہیدؒ نے سرنگاپٹم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، جس وقت ان کے خون میں لتھڑی ہوئی لاش پر انگریز فوجی نے کھڑے ہوکر یہ بات کہی تھی کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے“ اس کے بعدہی انگریزیہ کہنے کی ہمت پیدا کر پائے کہ ”اب کوئی طاقت ہمارا مقابلہ کرنے والی، ہمارے پنجے میں پنجہ ڈالنے والی نہیں ہے“ اور پھر انہوں نے عملی طورپرچھوٹے چھوٹے نوابوں اور راجاؤں کو شکست دیکر ان کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کردیا۔


مولانا نے کہا کہ ٹیپو سلطانؒ کی شہادت اور انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے بعدعلمائے کرام نے غلامی کی آہٹ کو محسوس کرلیا تھا اور اس کے بعد سے ہی جہادِ آزادی کاآغاز ہوا، جب انگریز نے1803 میں دہلی کے اندر یہ اعلان کیا کہ ”خلق خدا کی، ملک بادشاہ کا“ لیکن آج سے حکم ہمارا ہے، اس دن اس ملک کے سب سے بڑے عالم دین اور خدارسیدہ بزرگ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے بڑے بیٹے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلویؒ نے دلّی میں یہ فتوی دیا کہ ”آج ہمارا ملک غلام ہوگیا اور اس ملک کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے“ یہ جراء تمندانہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا کہ اس عالم دین کے علاوہ ہندوستان کے اندر کوئی ایسا نہیں تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقابلہ میں اپنی زبان سے آزادیئ وطن کے لیے جہادکا اعلان کرسکتا تھا۔اس فتویٰ کی پاداش میں ان کو بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں، انھیں زہر دے دیا گیا، ان کی جائداد کو قرق کرلیا گیا، ان کی آنکھوں کی بینائی اس زہر سے جاتی رہی، ان کو دلّی شہر سے در بدر کردیا گیا،وہ ان تمام سخت ترین حالات میں بھی انھوں نے اپنی موت سے پہلے دو روحانی شاگردپیدا کردیئے، ایک حضرت سیّد احمد شہید رائے بریلویؒ اور دوسرے شاہ اسماعیل شہیدؒ، ان لوگوں نے پورے ملک کے دورے کئے اور مسلمانوں سے جہاد کی بیعت اور اس کا عہد لیا کہ وہ ہمارے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے اپنی جان قربان کردیں گے۔


انہوں نے کہاکہ بالاکوٹ کے میدان میں ہزاروں مسلمان ان دونوں صاحبان کے ساتھ سب سے پہلی آزادیئ وطن کی جنگ میں شہید ہوئے،یہ سب سے پہلا آزادیئ وطن کے لئے جہاد تھا جو دوسرے جہاد آزادی (1857) کا مقدمہ تھا،جو لوگ وہاں اس وقت ناکامی کے بعد واپس ہوئے ان لوگوں نے واپس آکر پھر اِکائیوں کو جمع کیا اور افراد کو تیار کیا،اورچھبیس سال کی محنت کے بعد1857 میں دوبارہ آزادیئ وطن کے لئے جہاد شروع ہوا جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوئے لیکن مسلمان زیادہ تھے اور ہندو کم تھے۔

آزادیئ وطن کے لئے یہ دوسرا جہادبھی ناکام ہوا، اس جہاد کی پاداش میں علماء کو گرفتار بھی کیا گیا اور کچھ علماء نے اپنے آپ کو نظر بند کرلیا، جب یہ علماء تین چار سال کے بعد جیل سے باہر نکلے اور عام معافی کا اعلان ہوا تو انھوں نے بڑی عجیب و غریب چیز دیکھی کہ وہ یتیم جن کے باپ جامِ شہادت نوش کرگئے، انگریز کی دشمنی کی وجہ سے ان کے یتیم بچے سڑکوں پر ہیں، ان کے سرپر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے، ان حالات کا فائدہ اٹھاکر انگریزوں نے فکری محاذ پربھی اپنی لڑائی تیز کردی، چنانچہ کرسچن اسکول، عیسائی پوپ اور چرچ کے لوگ باہر نکل کر ان یتیموں کا ہاتھ پکڑتے اور کہتے کہ ہمارے ساتھ چلو ہم تم کو کھانا،رہائش اور تعلیم مفت دیں گے،مقصد ذہنی اعتبار سے ان کو انگریز بنانا تھا۔ یہ وہ بچے تھے جن کے آباء واجداد نے انگریز دشمنی میں جہاد آزادی میں جامِ شہادت نوش کیا لیکن اب انہیں کی اولاد انگریزوں کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کو فکری اعتبار سے اپنا غلام بنانا چاہتے تھے، ان حالات کو دیکھ کر علماء کرام سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ لیا کہ دو جہادوں میں مجاہدین شہید کر دئے گئے اب ہمیں آزادیئ وطن کے لئے ایسی فیکٹری کی ضرورت ہے جہاں اپنے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے مجاہدین تیار کئے جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔