مشکل حالات میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ریاستی درجے کی بحالی ناگزیر: عمر عبداللہ

عمر عبداللہ نے وضاحت کی کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ این سی-کانگریس اتحاد ریاستی مفاد کے لیے ہے، کسی سیاسی مفاد کے لیے نہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>
i
user

یو این آئی

جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے جمعرات کو کہا کہ نیشنل کانفرنس (این سی) کی حکومت نے جموں و کشمیر میں پچھلے ایک سال کے دوران غیر معمولی اور مشکل حالات میں اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام ہی آئندہ پانچ برسوں میں حکومت کے کام کا اصل فیصلہ کریں گے، اور حکومت کی اولین ترجیح عوامی فلاح و بہبود اور شفاف حکمرانی ہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہماری حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے، ایک سال یا دس ماہ کا نہیں۔ عوام کو حکومت کی کارکردگی کا جائزہ پورے دور اقتدار کے بعد لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ برس چیلنجز کے باوجود کئی اہم وعدے پورے کیے ہیں۔ 'کابینہ میں کئی اہم فیصلے لیے گئے، جن میں روزگار، تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے حوالے سے اصلاحات شامل ہیں۔ ہم نے جو وعدہ کیا تھا، اسے زمین پر اتارنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا ہے۔'


عمر عبداللہ نے اس موقع پر زور دیا کہ حکومت نے ایک سال میں جو بنیاد رکھی ہے، اسی پر اگلے چار برسوں میں تعمیر و ترقی کی عمارت کھڑی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین (ڈیلی ویجرز) کی مستقلی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہی محکمہ تعلیم نے 860 کنٹیجنٹ پیڈ ورکرز کو ریگولرائز کیا ہے، جو کئی سالوں سے معمولی معاوضے پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ حکومت کا عزم ہے کہ تمام محنت کشوں کو ان کا حق دیا جائے۔ ہم اپنے وعدوں پر قائم ہیں، اور پانچ سال کے اندر تمام ملازمین کے مسائل حل کیے جائیں گے۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکز نے ریاستی درجہ بحال کرنے کا جو وعدہ کیا تھا، اسے پورا کرنے کا وقت آ چکا ہے۔'ہم نے امید کی تھی کہ پہلے سال میں ہی ریاستی درجہ بحال کیا جائے گا، مگر ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے براہِ راست اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں کیے گئے وعدوں کو وفا کریں۔ہم چاہتے ہیں کہ ریاستی درجہ خون خرابے کے بغیر، پرامن ذرائع سے بحال ہو۔ یہ وعدہ بی جے پی کے اقتدار سے مشروط نہیں تھا۔ پہلے حد بندی، پھر انتخابات اور اس کے بعد ریاستی درجہ کی بحالی — یہی عہد عوام سے کیا گیا تھا۔


عمر عبداللہ نے وضاحت کی کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔'میں نے کانگریس کے جنرل سیکریٹری سے دہلی میں ملاقات کی ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ راجیہ سبھا انتخابات میں تین نشستیں این سی کی اور ایک نشست کانگریس کی ہوگی۔ نگروٹہ اور بڈگام کے ضمنی انتخابات پر بھی بات جاری ہے۔ اگر کانگریس کے پاس بہتر امیدوار ہے تو ہم نگروٹہ کی نشست انہیں دینے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ این سی-کانگریس اتحاد ریاستی مفاد کے لیے ہے، کسی سیاسی مفاد کے لیے نہیں۔

عمر عبداللہ نے بتایا کہ حکومت نے مرکز سے درخواست کی ہے کہ ایک جامع سروے کیا جائے تاکہ کلاؤڈ برسٹ اور لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ علاقوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ہم چاہتے ہیں کہ حکومت مستقبل کے لیے تیاری رکھے، کیونکہ موسم، جغرافیہ اور آبادی کے لحاظ سے کچھ علاقے خاص طور پر خطرے میں ہیں۔


وزیر اعلیٰ نے اعتراف کیا کہ انتظامیہ کے تعاون کے بغیر حکومتی کارکردگی ممکن نہیں تھی۔سب افسر ایک جیسے نہیں ہوتے، کچھ جذبے سے کام کرتے ہیں، کچھ نہیں۔ مگر مجموعی طور پر انتظامیہ نے حکومت کے منصوبوں کو کامیاب بنانے میں مدد کی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔