شفافیت کے حق میں سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

دہلی ہائی کورٹ نے 2010 میں اس معاملے میں صاف طور پر کہا تھا کہ چیف جسٹس کا آفس حق اطلاعات قانون کے تحت آتا ہے اور عدلیہ کی آزادی کسی جج کا خصوصی اختیار نہیں ہے بلکہ انہیں اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

ہندوستان کے چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کا آفس بھی حق اطلاعات قانون (آر ٹی آئی) کے دائرہ میں آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں یہ نظام نافذ کیا ہے۔ اعلیٰ عدالت کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے ایک رائے سے یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سی جے آئی کا آفس آر ٹی آئی قانون کے تحت پبلک اتھارٹی یعنی عوامی ادارہ ہے اور یہ متعلقہ قانون کے دائرے میں آتا ہے۔ آئینی بنچ نے کہا کہ آر ٹی آئی کے تحت جواب دہی سے شفافیت بڑھے گی، اس سے عدلیہ کی خود مختاری اور شفافیت مضبوط ہوگی، اس سے اس فکر کو مضبوطی ملے گی کہ آئین سے اوپر کوئی نہیں ہے۔

ویسے بھی یہ عام نظام ہے کہ آئین اور قانون کی کسوٹی پر ملک کے سبھی شہری اور مکمل نظام کو چلانے والا ہر ایک شخص برابر ہے خواہ وہ کتنے بھی اونچے عہدے پر یا ذی وقار کیوں نہ ہو لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کچھ معاملات میں محض روایت کی وجہ سے کسی شخص یا عہدے کو لے کر الگ ہی رخ اپنایا جاتا ہے۔ جب ملک میں حق اطلاعات کا قانون نافذ ہوا تھا اسی وقت اس میں کچھ معاملوں کو چھوڑ کر یہ سب پر نافذ ہونے کا واضح نظام تھا یعنی کچھ خفیہ اور سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ قومی سیکورٹی سے متعلقہ بے حد حساس معلومات کے علاوہ عموماً سبھی معاملات میں اطلاع دینی ہی ہوگی لیکن عدلیہ کے معاملے میں معاملہ صاف نہیں ہو پارہا تھا۔


حالانکہ دہلی ہائی کورٹ نے 2010 میں اس معاملے میں صاف طور پر کہا تھا کہ چیف جسٹس کا آفس حق اطلاعات کے قانون کے تحت آتا ہے اور عدلیہ کی آزادی کسی جج کا خصوصی اختیار نہیں ہے بلکہ انہیں اس کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اب آئینی بنچ نے اس فیصلے کو صحیح ٹھہرایا ہے۔ اپنے تازہ فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا آفس ایک پبلک اتھارٹی ہے، اس کے سبھی جج آر ٹی آئی کے دائرے میں آئیں گے۔ اس کے باوجود اس میں پہلے سے جاری رازداری برقرار رہے گی۔

آر ٹی آئی کی اہمیت ویسے بھی دنیا میں ظاہر ہے اور اس کے ذریعہ انتظامیہ میں شفافیت قائم کرنے سے لے کر رازداری کے نام پر چھپائی گئی جانکاریاں سامنے آتی رہی ہیں لیکن وقتاًفوقتاً کچھ ایسے بھی معاملات سامنے آتے رہے ہیں جب اطلاع اور پرائیویسی کے اصول کے درمیان ٹکراﺅ کے حالات بنتے نظر آئے۔ اس کے علاوہ گزشتہ کچھ برسوں میں ایسے سوال بھی اٹھے کہ کچھ معاملات میں آر ٹی آئی کو اوزار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے شاید اسی کے مدنظر عدالت نے خبردار کیا ہے کہ عدلیہ کے معاملے میں اگر آر ٹی آئی کے ذریعہ معلومات مانگی جاتی ہے تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے لیکن اس کا استعمال نگرانی رکھنے کے اوزار کے طور پر نہیں کیا جاسکتا اور شفافیت کے مسئلے پر غور کرتے وقت عدلیہ کی آزادی کو مدنظر رکھنا ہوگا۔


ججوں کی تقرری، ترقی اور تبادلے کے معاملے میں طریقہ کار کے سلسلے میں اطلاع دینے کے سوال کو بحث کا موضوع مانا گیا تھا۔ اس سلسلے میں آئینی بنچ نے کہا ہے کہ سی جی آئی آفس کو بتانا ہوگا کہ کولجیم کے ذریعہ ججوں کی تقرری کے لئے کن ناموں پر غور کیا گیا لیکن ناموں پر غور کے پیچھے کیا بنیاد تھی اس کی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ عدالت نے شفافیت کے مساوی پرائیویسی کے حق کو بھی ایک اہم بات مانا ہے اور چیف جسٹس کے آفس سے اطلاع دیتے وقت اس کے متوازن ہونے کی امید پر زور دیا ہے۔

آئینی بنچ میں شامل جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل-19 کے تحت نہ تو آر ٹی آئی اور نہ ہی پرائیویسی کا اختیار بغیر شرط ہے۔ سبھی جج اور سی جی آئی آئینی عہدہ سنبھالتے ہیں۔ وہیں جسٹس این وی رمن نے کہا کہ آر ٹی آئی قانون کی دفعہ-1 (جے) کے تحت دی گئی چھوٹ اطلاع کے حق اور پرائیویسی کے حق میں توازن بنانے کے لئے ہے۔ بہرحال اب کہا جارہا ہے کہ اس بے حد اہم مسئلے پر چھائی دھند صاف ہوسکے گی۔ یاد رہے اس وقت کے چیف جسٹس کے جی بالاکرشنن اطلاع کے حق قانون کے تحت ججوں سے متعلق اطلاعات کی جانکاری دینے کے حق میں نہیں تھے۔

(نواب علی اختر)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 17 Nov 2019, 3:30 PM