کسان تحریک کا اثر: پنجاب اور ہریانہ کے بی جے پی لیڈران میں کھلبلی

ہریانہ اور پنجاب دونوں جگہوں کے بی جے پی لیڈران اس وقت زبردست بیچینی محسوس کر رہے ہیں اور کسان تحریک ختم نہ ہونے سے انہیں تشویش ہے۔

کسان تحریک / UNI
کسان تحریک / UNI
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ 2 مہینوں سے دہلی کی سرحدوں پر سراپا احتجاج بنے کسان یومِ جمہویہ کے موقع پر راج پتھ کی طرز پر ٹریکٹر پریڈ نکال رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کسان تنظیموں نے یکم فروری کو دہلی کے مختلف علاقوں سے پارلیمنٹ کی جانب کوچ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ بی جے پی کے علاوہ پنجاب میں تمام سیاسی جماعتیں کسانوں کی حمایت میں ہیں۔ کم و بیش ایسے ہی حالات ہریانہ کے بھی ہیں جہاں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر سمیت کچھ دیگر وزرا نے اپنی یومِ جمہوریہ کی تقریب کے مقام ہی تبدیل کر دیئے ہیں۔ ہریانہ اور پنجاب دونوں جگہوں کے لیڈران اس وقت زبردست بیچینی محسوس کر رہے ہیں اور کسان تحریک ختم نہ ہونے سے انہیں تشویش ہے۔

آج تک میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کسان تحریک سے سب سے زیادہ تشویش ہریانہ کی منوہر لال کھٹر حکومت کو ہو رہی ہے۔ ریاست کے کسانوں نے اعلان کیا ہے کہ ہریانہ میں کسی بھی وزیر کو پرچم کشائی نہیں کرنے دیں گے، جبکہ کوئی افسر پرچم کشائی کرنا چاہے تو اسے نہیں روکا جائے گا۔ اس دھمکی کے پیش نظر وزیر اعلیٰ نے پانی پت کے بجائے پنچکولہ میں پرچم کشائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح تمام وزرا نے بھی جائے تقریب تبدیل کر دیئے۔


کسان تحریک کی وجہ سے ہریانہ میں بی جے پی-جے جے پی مخلوط حکومت پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر اور نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالہ صاف طور پر کہہ چکے ہیں کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود کھٹر کی کرنال میں کسان مہاپنچایت کی زبردست مخالفت ہوئی اور انہیں اپنی تقریب منسوخ کرنا پڑی۔ اس کے بعد سے بی جے پی لیڈران نے زرعی قوانین کے حق میں کوئی بھی تقریب ریاست میں منعقد نہیں کی۔ کسانوں کی ناراضگی کے سبب جے جے پی کے نصف سے زائد ارکان اسمبلی باغی تیور اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ہریانہ کے دیہی علاقوں کے لیڈران کو اپنے مستقبل کی فکر ستا رہی ہے لیکن پارٹی میں ہونے کی وجہ سے وہ اپنا رخ واضح نہیں کر پا رہے ہیں۔ بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر آج تک کو بتایا کہ کسان تحریک کے لمبا کھنچنے کی وجہ سے چیلنج بڑھ رہے ہیں۔ کسانوں کے ذہن سے یہ بات نہیں نکل پا رہی ہے کہ بی جے پی صنعت کاروں کی مددگار جماعت ہے، اس سے بی جے پی کا ہریانہ میں زبردست نقصان ہو رہا ہے۔


ادھر، ہریانہ کی طرح ہی پنجاب کے بی جے پی لیڈران میں بھی بیچینی پائی جا رہی ہے۔ حال ہی میں کئی بی جے پی لیڈران پارٹی چھوڑ کر اکالی دل میں شامل ہو گئے ہیں۔ بی جے پی کے سابق قومی نائب صدر لکشمی کانتا چاولہ نے تو حال ہی میں وزیر اعلیٰ مودی کو خط لکھ کر کہا تھا کہ کسان تحریک کو جلد از جلد ختم ہونا چاہیے۔ اس کا حل جلد سے جلد نکل جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دسمبر کے وسط میں سردی یا خودکشی کی وجہ سے مرنے والے کسانوں کی تعداد 30 تک پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں اگر وزیر زراعت اس معاملہ کو حل کرنے کے قبل نہیں ہیں تو وزیر اعظم کو بذات خود اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔