’اگر پی ایم مودی بات کریں تو کسانوں کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘

سابق مرکزی وزیر سکھدیو ڈھینڈسا کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی تحریک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اتنی اہمیت نہیں ملی جتنی کسان تحریک کو مل رہی ہے۔ کسانوں کی تحریک عوام کی تحریک بن گئی ہے۔

سکھ دیو سنگھ ڈھینڈسا، تصویر آئی اے این ایس
سکھ دیو سنگھ ڈھینڈسا، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

نئی دہلی: سابق مرکزی وزیر اور اکالی رہنما سکھ دیو سنگھ ڈھینڈسا نے کہا کہ اگر وزیراعظم نریندر مودی پہل کرتے ہوئے کسان رہنماؤں کو بلاتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں تو زرعی قوانین کے مسائل کا کوئی مناسب حل نکل سکتا ہے۔ ڈھینڈسا نے کہا کہ سوائے اس کے کوئی اور راستہ نہیں نظر آتا، جس سے حکومت اور کسانوں کے درمیان اختلافات ختم ہوں۔ اب تک جتنی بار بھی بات ہوئی وہ وزراء سے ہوئی ہے۔

ڈھینڈسا نے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے آج تک اس طرح کی تحریک نہیں دیکھی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کسی بھی تحریک کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اتنی اہمیت نہیں ملی جتنی کسان تحریک کو مل رہی ہے۔ کسانوں کی تحریک عام آدمی کی تحریک بن گئی ہے لہٰذا اگر حکومت پہلے کسانوں کی باتیں مان لیتی ہے تو اچھا ہوتا۔ اب تو جتنی بھی کسان تنظیمیں ہیں‘ ان سبھی کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ قانون واپس ہو۔ میں نے وزیراعظم سے اپیل بھی کی تھی کہ آپ پہل کریں، کسانوں کو بلائیں اور اس مسئلے کا حل نکالیں، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا‘۔


راجیہ سبھا رکن نے کسان تحریک پر عوامی حمایت کے سلسلے میں کہا،’ 26 جنوری کو جو کچھ ہوا وہ شرپسند عناصر نے کیا ہے۔ عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں لہٰذا اب نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر عوام کسانوں کی حمایت میں آ رہے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گٹریس اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹوڈو نے اس مسئلے پر تبصرہ کیا ہے۔ بین الاقوامی شخصیات نے ملک کو توڑنے کی بات نہیں کی ہے۔ وہ تو محض انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے آگے کچھ نہیں کہہ رہے ہیں‘۔

ڈھینڈسا نے حکومت اور کسانوں کے مابین ہوئی کئی دور کی بات چیت پر کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ اگر پی ایم مودی خود کسانوں کو بلائیں اور ان کی بات سنیں تو مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔ یہ میری ذاتی سوچ ہے۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ راستے ہمیشہ بات چیت سے ہی نکلتے ہیں۔ اب تک محض زرعی وزیر نریندر سنگھ تومر ہی کسانوں کے ساتھ بات چیت کرتے آئے ہیں لیکن کسان چاہتے ہیں کہ وزیراعظم پہل کریں اور انھیں بات کرنے کے لیے مدعو کریں‘۔


انہوں نے کسانوں کو اب تک دی گئی تجویز کے بارے میں کہا کہ ’جہاں تک سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی بات ہے تو اس پر عوام معترض ہیں کیونکہ اس کمیٹی کے اراکین نے زرعی اصلاحاتی قوانین لانے پر زور دیا تھا اور یہی پہلے ہی تینوں زرعی قوانین کی حمایت میں بیان دے چکے ہیں۔ کمیٹی غیر جانبدار ہونی چاہیے جس پر کسی کو اعتراض نہ ہو جس سے ایک متوازن حل نکل سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ حکومت کو پہلے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا مسئلہ حل کر لینا چاہیے تھا اور پھر کمیٹی بنتی کوئی دقت نہیں تھی‘۔

ڈھینڈسا نے کسان تحریک میں ایک ہی ریاست کے عوام کو شامل ہونے کے سلسلے میں تبصروں کے بارے میں کہا کہ ’یہ بھرم پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے، کسان تحریک میں جتنے پنجاب کے لوگ ہیں اتنے ہی ہریانہ، اترپردیش اور دیگر ریاستوں کے ہیں۔ اگر کوئی اب بھی کہتا ہے کہ اس میں محض پنجاب کے ہی عوام شامل ہیں تو یہ حیران کن بات ہے۔ ایم ایس پی کا سب سے زیادہ اثر پنجاب اور ہریانہ پر پڑتا ہے۔ جب ملک کو اناج کی ضرورت تھی تو پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں نے ہی پورے ملک کو اناج مہیا کروایا تھا‘۔


انہوں نے مزید کہا کہ ’خالصتان کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ جان بوجھ کر اور سوچی سمجھی سازش کے تحت گمراہی پھیلائی جاتی ہے کہ سکھ خالصتان چاہتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ کچھ میڈیا ادارے بھی اس بارے میں غلط تشہیر کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی ہے‘۔

ڈھینڈسا نے کہا کہ ان زرعی اصلاحاتی قوانین کے پاس ہونے کے بعد میں نے وزیراعظم کو خط لکھا تھا اور انھیں واپس لینے کی درخواست کی تھی کیونکہ یہ کسانوں کے حق میں نہیں ہیں۔ منڈیاں ختم کر دیں اور ایم ایس پی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ اس کے بعد مخالفت درج کروانے کے لیے میں نے اپنا پدم بھوشن اعزاز حکومت کو لوٹا دیا تھا۔ کئی کھلاڑیوں نے بھی کسانوں کے حق میں اپنے ایوارڈ اور اعزاز واپس کر چکے ہیں‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔