’’میں کسی بھی ایجنسی کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘

اکتوبر میں بی جے پی چھوڑ این سی پی میں شامل ہوئے ایکناتھ کھڈسے نے ایک بار کہا تھا کہ ’’ان کے پاس ای ڈی ہے، تو میرے پاس سی ڈی ہے۔‘‘ اب انھوں نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی ایجنسی کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔

ایکناتھ کھڈسے، تصویر آئی اے این ایس
ایکناتھ کھڈسے، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

ممبئی: وسیع پیمانے پر قیاس آرائیوں کے دوران 40 سال تک بھارتیہ جنتا پارٹی میں رہنے والے ایکناتھ کھڈسے جنھوں نے 23 اکتوبر کو نیشنلسٹ کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی، نے کہا کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی طرف سے ممکنہ طور پر انھیں، پونے میں لینڈ ڈیل کیس سے متعلق سمن بھیجے جاسکتے ہیں۔ 68 سالہ ایکناتھ کھڈسے نے ہفتہ کو میڈیا نمائندوں کو اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ای ڈی کی طرف سے ابھی تک کوئی سرکاری طور پر باضابطہ نوٹس نہیں ملا ہے۔ "تاہم ، میں نے متعدد ذرائع سے سنا ہے کہ ای ڈی کی طرف سے کچھ نوٹس آرہے ہیں، اور یہ پونے میں بھوساری اراضی کے معاہدے سے متعلق ہیں۔"

واضح رہے کہ ایکناتھ کھڈسے جنھوں نے اکتوبر میں بی جے پی کو پردہ دار انتباہ جاری کرتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ "اگر ان کے پاس ای ڈی ہے تو، میری پاس سی ڈی ہے"۔ انہوں نے کہا کہ وہ ذہنی طور پر کسی بھی ایجنسی کی تحقیقات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔


این سی پی کے قومی ترجمان نواب ملک نے مرکزی جانچ ایجنسیوں کے ذریعہ سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے پر بی جے پی پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس طرح کی پیشرفتوں پر شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ "ماضی میں بھی این سی پی کے صدر شرد پوار اور دیگر سمیت ہمارے اعلی رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا۔

کھڈسے نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ای ڈی صرف 100 کروڑ روپے اور اس سے زیادہ کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ “پونے اراضی کا سودا 4 کروڑ روپے سے بھی کم کا ہے، یہ میری بیوی اور داماد نے خریدا تھا اور سب کچھ شفاف تھا۔ یہاں تک کہ اینٹی کرپشن بیورو نے بھی بامبے ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کمیشن (جسٹس ایم ڈی زوتنگ) سے تحقیقات کروائی تھی، لیکن کچھ نہیں نکلا اور مجھے کلین چٹ دے دی، اس معاملے کے تمام دستاویزات دستیاب ہیں۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کی کابینہ میں وزیر محصول رہ چکے کھڈسے کو پونے سرکاری اراضی سودے میں مبینہ غلط کاموں کے الزام میں نام آنے کے بعد 2016 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */