ہماچل پردیش بھی جوشی مٹھ کی راہ پر، صلاحیت سے زیادہ تعمیر کے سبب چٹانوں میں پڑ رہے شگاف

ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر بے قابو، غیر متوازن اور غیر سائنسی تعمیر پر فوراً روک نہ لگی تو دیر سویر ہماچل پردیش کے حساس علاقوں کا حشر بھی جوشی مٹھ کے جیسا ہو سکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر امریک</p></div>

تصویر امریک

user

امریک

کیا پہاڑی ریاست ہماچل پردیش کے پہاڑی علاقے بھی اتراکھنڈ کے جوشی مٹھ کی راہ پر گامزن ہیں؟ کیونکہ ہماچل کے کئی علاقوں میں بھی پہاڑ میں شگاف پڑنے لگے ہیں اور لوگ اندیشوں سے خوفزدہ ہیں۔ اس کی تصدیق مقامی لوگوں اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ سابق مرکزی وزرا اور وزیر اعلیٰ رہے مشہور بی جے پی لیڈر شانتا کمار نے بھی کی ہے۔ ریاست کے ماہر ارضیات بھی اس تعلق سے کافی فکر مند ہیں۔ یہاں پہلے بھی کئی جگہ زیر زمین چٹانیں کھسکنے سے حادثات پیش آ چکے ہیں۔ ماہر ارضیات ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ، دھرم شالہ، کانگڑا، منڈی اور میکلوڈ گنج (جہاں تبتی مذہبی پیشوا دلائی لامہ کی رہائش ہے) کو حساس مانتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک رپورٹ نو منتخب وزیر اعلیٰ سکھوندر سنگھ سکھو اور مرکزی حکومت کو بھیجی گئی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر بے قابو، غیر متوازن اور غیر سائنسی تعمیر پر فوراً روک نہ لگی تو دیر سویر ان حساس علاقوں کا حشر بھی جوشی مٹھ جیسا ہو سکتا ہے۔

منڈی کے میڈیا اہلکاروں نے دورہ کرنے کے بعد بتایا ہے کہ منڈی ضلع کے تین گاؤں خطرے کی زد میں آ چکے ہیں۔ مقامی صحافی مکیش مہرا کے مطابق ضلع کے بالی چوکی سب ڈویژن کے تھلوٹ، ناگنی اور پھاگو گاؤں جس پہاڑ پر ہیں، اس میں شگاف آ گیا ہے۔ اس شگاف کی وجہ منالی-چنڈی گڑھ فور لین کی تعمیر کے لیے ہوئی پہاڑ کی کٹنگ ہے۔ زلزلہ کے جھٹکوں نے بھی یہاں کے حالات بگاڑے ہیں۔ یہ بات محکمہ ارضیات کی رپورٹ میں واضح طور پر سامنے آئی ہے۔ ویسے مکمل ہماچل پردیش کو زلزلہ کے لحاظ سے انتہائی حساس علاقہ مانا جاتا ہے۔ مکیش مہرا کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 20 نومبر کو پہاڑ میں شگاف آیا تھا۔ پہلے تو مقامی لوگوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، لیکن شگاف بڑھ کر 2 سے 3 فٹ تک ہو گیا، اور پورا پہاڑ چٹخنے سے کچھ گھروں میں بھی شگاف دکھائی دینے لگا۔ اب 3 گاؤں میں 32 مکانات، 16 مویشی گھروں، تین مندروں اور ایک سرائے کو خطرہ ہے۔ ان تین گاؤں میں تقریباً 150 لوگوں کا بسیرا ہے۔

ہماچل پردیش بھی جوشی مٹھ کی راہ پر، صلاحیت سے زیادہ تعمیر کے سبب چٹانوں میں پڑ رہے شگاف

انتظامیہ نے ان میں سے چار مکانات پوری طرح خالی کروا کر ان میں رہ رہے لوگوں کو ایک مندر میں ٹھہرایا ہے۔ پہاڑ میں شگاف پڑنے کی وجہ جاننے کے لیے گزشتہ دسمبر میں خصوصی سروے کرایا گیا تھا۔ گزشتہ سال ستمبر اور نومبر تک آئے زلزلہ کے 4 جھٹکوں سے پہاڑ میں شگاف بڑھتا گیا۔ فی الحال عالم یہ ہے کہ اب پہاڑ کے ایک بڑے حصے کے گرنے کا خطرہ ہے۔

سنٹرل یونیورسٹی دھرمشالہ کے محکمہ ارضیات کے صدر ڈاکٹر امریش مہاجن نے بتایا کہ دھرمشالہ، میکلوڈ گنج اور شملہ میں صلاحیت سے زیادہ عمارت تعمیر ہو رہی ہے اور جغرافیائی حالات کو بغیر دھیان میں رکھے اونچی عمارتوں کی تعمیر کی جا رہی ہے، اور پانی کی نکاسی کا بھی دھیان نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر مہاجن کے مطابق رخنات کی وجہ سے بہتا پانی زمین کے اندر داخل ہو کر زمین کو کمزور کر رہا ہے، جس سے پہاڑوں کے چٹخنے کا خطرہ لگاتار بڑھ رہا ہے۔ ڈاکٹر امریش یہ بھی کہتے ہیں کہ جوشی مٹھ کا خوفناک بحران ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ اس کی بنیاد بہت پہلے سے پہاڑوں پر غیر سائنسی طریقے سے صلاحیت سے زیادہ عمارت تعمیر کے ذریعہ رکھی جا رہی تھی۔ جس شخص میں 10 کلوگرام وزن اٹھانے کی صلاحیت ہے، اگر اس پر 50 کلوگرام وزن لاد دیا جائے تو اسے سنبھال نہ پانے کی حالت میں اس کا بیٹھنا یقینی ہے۔ یہی اب ہماچل پردیش میں بھی ہو رہا ہے۔

ہماچل پردیش بھی جوشی مٹھ کی راہ پر، صلاحیت سے زیادہ تعمیر کے سبب چٹانوں میں پڑ رہے شگاف

واضح رہے کہ ہماچل پردیش میں زمین دھنسنے کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہاں پیڑ پودے بھی چھوٹی جڑوں والے ہوتے ہیں اور مٹی دلدلی و ریتیلی ہے۔ حادثے نہ ہوں، اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ یہاں گہری جڑوں والے پودے لگائے جائیں۔ زمین دھنسنے کی وجہ سے ہماچل پردیش کے مختلف علاقوں میں آئے دن حادثے ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ کئی علاقے دور دراز اور عام زندگی سے کٹے ہوئے ہیں، اس لیے وہاں کی خبریں میڈیا میں نہیں آ پاتیں اور حکومت اور مقامی انتظامیہ بھی کافی دیر بعد اس سب سے واقف ہوتا ہے۔ مثلاً 12 جولائی 2020 کو ایک پہاڑی سے آئے ملبے میں دبنے سے دس لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ گزشتہ سال کسولی کے پاس ایسا ہی ایک حادثہ ہوا تھا۔ پالم پور میں بھی ایک زیر تعمیر ہوٹل پوری طرح منہدم ہو گیا تھا۔ وہاں بھی کچھ لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ ہماچل پردیش کی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا اور تمام معاملوں میں لاپروائی سامنے آئی تھی۔ اگست 2022 میں کانگڑا ضلع کے کچھ گاؤں کو نقصان پہنچا تھا اور آناً فاناً میں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔

سنٹرل یونیورسٹی دھرمشالہ کے ڈاکٹر امریش یہ بھی بتاتے ہیں کہ دھرمشالہ کے میکلوڈ گنج واقع دلائی لامہ مندر اور اس کے آس پاس زمین کے اندر کلے اور مڈ اسٹون (پتھر) ہیں۔ لہٰذا زمین دھنسنے کے نظریہ سے یہ علاقہ بے حد حساس ہے۔ پوری ریاست میں سے کئی علاقے نشان زد ہیں جہاں لگاتار زمین دھنس رہی ہے۔ ایسے میں یہاں کثیر منزلہ تعمیر سے پوری طرح پرہیز کرنا چاہیے۔ زراعت اور واٹر پروجیکٹ کی پائپ لائنوں میں ہو رہے رِساؤ کو دور کرنا ہوگا۔ کثیر منزلہ عمارتوں کی جگہ ہاٹس کے ذریعہ سیاحت کو فروغ دینے کے منصوبہ پر کام کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہماچل پردیش کی تباہی بھی یقینی ہے۔

ہماچل پردیش بھی جوشی مٹھ کی راہ پر، صلاحیت سے زیادہ تعمیر کے سبب چٹانوں میں پڑ رہے شگاف

دوسری طرف مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلیٰ و مشہور بی جے پی لیڈر شانتا کمار نے بھی کہا ہے کہ جس طرح جوشی مٹھ میں واقعات سامنے آ رہے ہیں، اسی راستے پر ہماچل کے کئی حصے بڑھ رہے ہیں۔ ترقی کے بہانے پہاڑوں کی کانکنی خطرناک ہے اور اس سے پہاڑوں کا سینہ چھلنی ہو گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی تو پورے ہندوستان کی پہاڑی ریاستوں میں دھیرے دھیرے وہی ہوگا جو جوشی مٹھ میں ہو رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔