اعلیٰ ذات کی ہندو خواتین ہوشیار! بلقیس کے مجرموں کی رہائی آپ کے لیے زیادہ بڑا خطرہ

کیا آر ایس ایس کے سابق چیف کے. سدرشن نے نہیں کہا تھا کہ خواتین کا کام صرف بچے پیدا کرنا اور شوہر کے لیے کھانا بنانا ہے؟ موجودہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بھی کچھ سال قبل اسی قسم کا بیان دیا تھا۔

بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
بلقیس بانو، تصویر آئی اے این ایس
user

سجاتا آنندن

بلقیس بانو کے مجرموں کو رِہا کرنے کی خبر سے میں اتنی حیران تھی کہ کئی دن تک تو اس پر کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں کر پائی۔ لیکن اب جب میں سوچ رہی ہوں تو یہ خیال کر کے شرمندہ ہوں کہ آخر آج ملک میں اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے مردوں اور خواتین کے لیے اس کا کیا مطلب ہے۔ غور کرو تو سامنے آتا ہے کہ بلقیس بانو تو دوہری مار کی شکار ہوئی ہے۔ وہ مسلم ہے اور وہ خاتون ہے۔ آج جو حالات ہیں وہ واضح کر رہے ہیں کہ آج کے نیو انڈیا میں مسلم ہونے کا کیا مطلب ہے۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ خواتین، اعلیٰ ذات کی ہندو خواتین سمیت، آر ایس ایس حکمراں ملک میں اس واقعہ کا کیا مطلب نکالتے ہوں گے۔

کیا آر ایس ایس کے سابق چیف کے. سدرشن نے نہیں کہا تھا کہ خواتین کا کام تو صرف بچے پیدا کرنا اور اپنے شوہر کے لیے کھانا تیار کرنا ہے؟ موجودہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے بھی کچھ سال قبل اسی قسم کی باتیں کہی تھیں۔ انھوں نے دیہی اور شہری علاقوں کی خواتین میں فرق کو نشان زد کیا تھا کہ شہری ہندوستان یعنی انڈیا کی خواتین کے ساتھ عصمت دری کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں جب کہ ہندوستان کے دیہی علاقوں کی خواتین شہری خواتین کی بہ نسبت زیادہ محفوظ ہیں۔


لیکن ہم جانتے ہیں کہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ شہر میں ہر ایک نربھیا کے ساتھ ہی ہاتھرس میں آشا ہے، تو گجرات میں بلقیس۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ خواتین کسی بھی مذہب، ذات کی ہو، آر ایس ایس کی سوچ والے لوگوں کے لیے محض کھلونا بھر ہیں۔ سدرشن کی خواہش تھی کہ ہندو خواتین زیادہ بچے، کم از کم پانچ بچے پیدا کریں، تاکہ ملک میں مسلم آبادی سے مقابلہ کیا جا سکے (جیسے کہہ رہوں کہ ہندوؤں کی تعداد خطرے میں ہے)، اور شاید اسی لیے وہ لوگ خواتین (اعلیٰ ذات کی خواتین سمیت) کو ننگے پیر رکھتے ہیں، انھیں حاملہ کرتے ہیں اور رسوئی میں مصروف رکھتے ہیں تاکہ وہ سماج میں مزید کوئی کردار نہ نبھا سکیں۔

نچلی ذات کی ہندو اور مسلم خواتین کی حالت تو مزید خراب ہے اور شاید ایسا وقت بھی آئے گا جب ’سنسکاری‘ اعلیٰ ذات کے مرد لوگ خواتین کے ساتھ کیا کچھ کر رہے ہیں، اس کی کوئی پروا ہی نہیں کرے گا۔


یہی کچھ اسباب ہیں کہ پنڈت جواہر لال نہرو اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو لے کر میرے دل میں زیادہ عزت و احترام ہے۔ دونوں کے پس منظر میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ نہرو اعلیٰ ذات والے طبقہ سے آتے تھے، جب کہ ڈاکٹر امبیڈکر کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی سماجی پریشانیوں سے نبرد آزما ہونا پڑا۔ اس کے باوجود دونوں ہی سماج اور ملک کی تعمیر میں خواتین کے کردار کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور اسی لیے دونوں نے خواتین کو ہندو کوڈ بل کے ذریعہ مناسب حقوق دینے کا کام کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس بل کا کانگریس میں ہی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے کس قدر مخالفت کی، جب کہ کانگریس اس وقت کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تھی۔ یہاں تک کہ ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے بھی اس بل کی مخالفت کی تھی۔ لیکن پنڈت نہرو اور ڈاکٹر امبیڈکر پیچھے نہیں ہٹے اور نتیجتاً سبھی خواتین، وہ بھی جو آج نہرو کے لیے نازیبا الفاظ بولتی ہیں، اور امبیڈکر کو ریزرویشن کے لیے ذمہ دار ٹھہراتی ہیں، انھیں بھی چار اہم حقوق ملے ہیں۔ یہ ہیں بالغ ہونے پر اپنی خواہش سے شادی کا حق (کم عمری میں شادی پر پابندی لگ گئی تھی اور بین مذہبی شادی کی چھوٹ دی گئی تھی)، طلاق کا حق (پہلے خواتین اپنے ظالم شوہر کو برداشت کرنے کے لیے مجبور تھیں، جب کہ شوہر کو چھوٹ تھی کہ اگر اسے اپنی پہلی بیوی سے اطمینان نہیں ہے تو وہ بغیر کسی سماجی بندھن کے دوسری خاتون سے شادی کر سکتا تھا)، ایک ہی شوہر کا قانون (ایک سے زیادہ شادی پر روک)، اور ساتھ ہی والدین کی ملکیت میں برابری کا حصہ۔ پہلے خواتین کو کچھ جہیز دے کر ان کے شوہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔

یہ وہ حقوق اور باتیں ہیں جو آر ایس ایس مفکرین کو پریشان کرتی ہیں۔ آر ایس ایس کی سوچ ہے کہ سبھی خواتین صرف اور صرف اپنے شوہر کی نوکر اور اس کی جنسی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ محض بن کر رہ جائیں۔ لیکن افسوس ہے کہ بلقیس کے گنہگاروں کو مالا پہنا کر استقبال کرنے والی اعلیٰ ذات کی خواتین ہیں اور انہی پر سب سے زیادہ خطرہ ہے کہ وہ پھر سے مردوں کی ’داسی‘ بن جائیں اور ان کے پاس ’منو اسمرتی‘ سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔


نچلی ذات کی خواتین کے پاس بچنے کا ایک راستہ ہے کہ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی طرح بودھ مذہب کا راستہ اختیار کریں اور سماج میں برابری کا حق پا لیں۔ مسلم خواتین کے پاس بھی قرآن کے ذریعہ کافی کچھ اختیارات ہیں، جو ’منواسمرتی‘ میں ہندو خواتین کے پاس نہیں ہیں۔ خاص طور سے تین طلاق کا معاملہ ہے جو کہ صرف سنی مسلم میں ہی موٹے طور پر عام ہے، اور سنیوں میں بھی اس طبقے پر جو حنفی مسلک کے ہیں، نہ کہ مالکی، شافعی یا حنبلی طبقے پر۔ لیکن اس معاملے کو تین طلاق کو جرم قرار دے کر سلجھا دیا گیا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ پہلے ہی ایسا کر چکا تھا۔

ایسے میں اگر سب سے زیادہ غیر محفوظ اور خطرے میں ہیں تو وہ ہیں اعلیٰ ذات کی خواتین، جو آر ایس ایس کی منفی اور خاتون مخالف پالیسیوں کے نشانے پر ہیں۔ اگر ان کے اصول نافذ ہو گئے تو ’چرک شپتھ‘ کی بنیاد پر کوئی بھی خاتون ڈاکٹر نہیں بن پائے گی، کیونکہ چرک شپتھ کی شرط ہے کہ ڈاکٹر کو داڑھی ہونا چاہیے۔ خواتین کو ملکیت میں حصہ ملنا بند ہو جائے گا کیونکہ آر ایس ایس مفکر وقت وقت پر کہتے رہے ہیں کہ ملکیت میں خواتین کو حق دینے سے ان کا اپنے بھائیوں سے جھگڑا ہوگا، انھیں دیا جانے والا جہیز (جسے خواتین کی سیکورٹی کے لیے ’استری دھن‘ کے طور پر دیا جانا تھا) پر ان کے شوہروں کا حق ہوگا اور ایسے میں خواتین معاشی اور سماجی طور پر بے وسیلہ اور کمزور بن جائیں گی۔ اتنا ہی نہیں، اعلیٰ ذات کی خواتین اپنی خواب گاہ کو دیگر خواتین کے ساتھ شیئر کریں کیونکہ ان کے شوہر اپنی پسند کی لاتعداد خواتین کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں (اسلام میں تو زیادہ سے زیادہ 4 شادی کی ہی اجازت ہے)۔


ہم میں سے کچھ، یقیناً آر ایس ایس کے ذریعہ مقرر کردہ اس سانچے میں فٹ نہیں ہوتی ہیں۔ مجھے صحافت میں اپنے شروعاتی دنوں کی ایک بات یاد آتی ہے، جب ایک بڑے بی جے پی لیڈر نے مجھے بلایا تھا کیونکہ میں لگاتار ان کی پالیسیوں کے خلاف لکھ رہی تھی۔ لیکن اسے یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس لیڈر نے مجھ سے کہا ’’تم کیسی ہندوستانی ہندو لڑکی ہو (اس نے میری کلپت ذات کا تذکرہ کیا) جو اقلیتوں کی حمایت کر رہی ہے؟‘‘ میں ان دنوں بہت بے پروا ہوتی تھی، اس لیے میں نے جواب دیا کہ اس میں میرا لڑکی یا ہندوستنای ہونا معنی نہیں رکھتا۔ وہ میری بات سے چونک گیا تھا اور اس نے مان لیا تھا کہ یا تو میں کمیونسٹ ہوں یا پھر عیسائی، کیونکہ ہندو خواتین تو مردوں کی باتوں کو بہت ہی سلیقے سے سنتی اور مان لیتی ہیں، اور میں ایسی نہیں تھی۔

آر ایس ایس کی اسی سوچ سے بی جے پی اور کٹرپسندوں کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ بلقیس بانو کے مجرموں کی رِہائی دیگر طبقات کے مقابلے ہندو اعلیٰ ذات کی خواتین کے لیے کہیں زیادہ بڑے خطرہ کا اشارہ ہے۔

ہوشیار رہنا خواتین اور ساتھی شہریو!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔