سپریم کورٹ میں منی پور تشدد پر آج پھر سماعت، ڈی جی پی کو عدالت میں رہنا ہوگا موجود

منی پور میں تشدد کے سلسلے میں پچھلی سماعت میں سی جے آئی نے ریاستی پولیس کو سخت سرزنش کی تھی۔ عدالت نے تحقیقات میں سست روی  پر کی تھی سرزنش۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ منی پور میں جاری ذات پات کے تشدد سے متعلق درخواستوں پر آج پیر یعنی 7 اگست کو دوبارہ سماعت کرے گا۔ پچھلی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے تحقیقات کو سست قرار دیتے ہوئے ریاستی پولیس کی سخت سرزنش کی تھی۔ سی جے آئی نے منی پور کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (منی پور ڈی جی پی) کو پیر کی سماعت کے دوران جواب کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس سے قبل منگل کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ذات پات کے تشدد کے دوران ہونے والے واقعات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں دو ماہ سے پوری آئینی مشینری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ سی جے آئی نے دو کوکی-زومی خواتین کے معاملے میں دو ماہ تک ایف آئی آر درج نہ کرنے پر بھی سوال اٹھایا جن کی عصمت دری کی گئی اور برہنہ پریڈ کرائی گئی۔ 


چیف جسٹس نے استفسار کیا تھا کہ واقعے کے 18 دن بعد صفر ایف آئی آر لکھی گئی۔ پھر ایک ماہ بعد ایف آئی آر درج ہوئی۔ اتنی دیر کیوں لگ گئی؟ کیا یہ واحد کیس تھا یا ایسے اور بھی کیسز ہیں۔ 6500 ایف آئی آر درج ہوئیں، خواتین کے خلاف جرائم کی کتنی شکایات ہیں؟ سی جے آئی نے کہا، ہمیں 6500 ایف آئی آر کی الگ سے جانچ کرنے کی ضرورت ہے۔ کتنی زیرو ایف آئی آر ہیں، کتنے گرفتار ہوئے اور کتنے عدالتی تحویل میں ہیں؟

سپریم کورٹ نے ڈائریکٹر جنرل پولیس سے واقعے کا ریکارڈ، ایف آئی آر، گرفتاری اور متاثرین کے بیانات بھی پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ ہم اس پہلو پر بھی غور کریں گے کہ کون سے کیسوں کو تفتیش کے لیے سونپا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ سی جے آئی نے ہائی کورٹ کے سابق ججوں کی ایک کمیٹی بنانے کی بھی بات کہی تھی۔ سی جے آئی نے کہا تھا کہ عدالت اس کمیٹی کے دائرہ کار کا فیصلہ کرے گی۔


3 مئی کو منی پور میں قبائلی برادری کی ایک ریلی کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ یہ ریلی منی پور میں میتئی کمیونٹی کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے کے عدالتی حکم کے خلاف احتجاج میں نکالی گئی تھی۔ اس کے بعد ذات پات کے تشدد میں 160 سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں، جب کہ سینکڑوں لوگ زخمی ہیں۔ 50 ہزار سے زائد لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر پناہ گاہوں میں پناہ لینا پڑی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔