اڈانی گروپ اور ہنڈن برگ رپورٹ معاملے کی جانچ کا مطالبہ کرنے والی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت کل

داخل عرضی میں اڈانی گروپ پر ہنڈن برگ ریسرچ کے الزامات کی جانچ ایک کمیٹی بنا کر عدالت کے سبکدوش جج کی نگرانی میں کرائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

اڈانی گروپ سے متعلق ہنڈن برگ کی رپورٹ پر ہندوستان میں تنازعہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن پارٹیاں مرکز کی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں، تو دوسری طرف یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی پہنچ چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے 10 فروری یعنی کل ہنڈن برگ-اڈانی معاملے سے متعلق داخل عرضی پر سماعت کی بات کہی ہے۔ اس عرضی میں اڈانی گروپ پر ہنڈن برگ ریسرچ کے الزامات کی جانچ ایک کمیٹی بنا کر عدالت کے سبکدوش جج کی نگرانی میں کرائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ایڈووکیٹ وشال تیواری نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی بنچ کے سامنے مذکورہ بالا عرضی پیش کرتے ہوئے جلد از جلد اس پر سماعت کا مطالبہ کیا۔ عرضی دہندہ نے عدالت کو بتایا کہ الگ سے بھی اس معاملے میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس پر 10 فروری کو سماعت ہونے والی ہے۔ انھوں نے بنچ سے کہا کہ اس عرضی کے ساتھ ان کی بھی دلیلوں کو سنا جائے۔


وشال تیواری نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے علاوہ جسٹس پی ایل نرسمہا اور جسٹس جے بی پاردیوالا والے اس بنچ کے سامنے جو مفاد عامہ عرضی داخل کی ہے اس میں اڈانی گروپ پر ہنڈن برگ ریسرچ کے الزامات کی جانچ کے علاوہ بڑے کارپوریٹس کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ دیے گئے قرض کی پالیسی کے تجزیہ کو لے کر اسپیشل کمیٹی بھی بنائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایڈووکیٹ ایم ایل شرما نے ہنڈن برگ ریسرچ کے الزامات پر شارٹ سیلر ناتھن اینڈرسن اور ہندوستان میں اس کے معاونین کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے عرضی لگائی تھی۔ انھوں نے اپنی عرضی میں ملک کے سرمایہ کاروں کو لوٹنے اور آرٹیفیشیل طریقے سے اڈانی گروپ کے شیئرس کو گرانے کا الزام لگایا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 24 جنوری 2023 کو ہنڈن برگ ریسرچ نے اڈانی گروپ پر کئی طرح کے الزامات عائد کیے تھے جن میں غلط طریقے سے اسٹاک کو بھگانے کا الزام شامل تھا۔ حالانکہ اڈانی گروپ نے ان الزامات کو سرے سے مسترد کر دیا تھا۔ ہنڈن برگ کے ان الزامات کے بعد اڈانی گروپس کے شیئرس میں 65 فیصد سے زیادہ کی گراوٹ آ چکی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔