فریضہ حج ہوتا جا رہا مہنگا، کیا عازمین حج کو کمائی کا ذریعہ سمجھ رہی حج کمیٹی آف انڈیا!

حج امور کی واقفیت رکھنے والے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آخر حج کو مہنگا کیوں کیا جا رہا ہے، اور حج کمیٹی آف انڈیا کی ذمہ داری سہولتیں مہیا کرنے کی ہیں تو پھر وہ اس طرف توجہ کیوں نہیں دے رہی۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

تنویر

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے فریضۂ حج کی ادائیگی دن بہ دن مہنگی ہوتی جا رہی ہے اور کورونا کے اس دور میں جب بیشتر افراد معاشی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، حج کی خواہش رکھنے والوں کو ساڑھے تین لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچ بتایا گیا ہے جو کہ باعث فکر ہے۔ مختلف ریاستوں میں حج کی سرگرمیوں سے منسلک تنظیموں کے سربراہان کو یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ آخر حج کو مہنگا کیوں کیا جا رہا ہے، اور حج کمیٹی آف انڈیا کی ذمہ داری سہولتیں مہیا کرنے کی ہیں تو پھر وہ اسے ٹھیک طرح سے نبھانے کی جگہ بدنظمی کیوں پیدا کر رہی ہے۔

کچھ ایسی ہی فکر اور ایسے ہی سوالات کے ساتھ ملک کی راجدھانی دہلی میں عازمین حج کی خدمات انجام دینے والی رضاکارانہ تنظیموں کے ذمہ داران نے مل بیٹھ کر آپس میں تبادلۂ خیال کیا۔ یہ میٹنگ مشہور و معروف سماجی کارکن اور انجمن فلاح حجاج کے صدر حاجی ظہور اٹیچی والا کی دریا گنج واقع رہائش گاہ پر ہوئی اور مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور مختار عباس نقوی کے سامنے کچھ اہم مطالبات پیش کیے گئے۔ میٹنگ میں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے معزز شخصیتوں نے حج کمیٹی آف انڈیا کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل اس طرح کا رویہ اختیار کر چکی ہے جیسے کہ وہ کوئی منافع کمانے والی کمپنی ہو، اور اس نے دورۂ حج کو سیاحت سمجھ لیا ہے۔


اس میٹنگ کے تعلق سے روزنامہ ’انقلاب‘ میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ظہور اٹیچی والا نے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی سے مطالبہ کیا کہ حج کمیٹی آف انڈیا کو منافع کمانے والی کمپنی کی طرح نہ چلایا جائے بلکہ حقیقی معنی میں سہولت فراہم کرانے والی کمپنی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ میٹنگ میں شامل لوگوں کا کہنا تھا کہ جس طرح سے مسلسل حج مہنگا کیا جا رہا ہے، اور جس طریقہ سے کمیٹی کی جانب سے منمانی ہو رہی ہے اس سے ملک کا غریب اقلیتی طبقہ حج کی سعادت سے محروم رہ جائے گا۔

حاجی ظہور اٹیچی والا نے میٹنگ میں یہ بات رکھی کہ آخر کیا وجہ ہے جو عازمین حج سے 3.54 لاکھ روپے مانگے جا رہے ہیں جب کہ اس وقت یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ 2021 کا حج ہوگا بھی یا نہیں۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ 2020 میں کورونا وبا کے سبب سفری پابندیوں کے بعد حج کا سفر کینسل کرنا پڑا تھا اور 2021 میں احتیاط کے ساتھ دورۂ حج کی بات ہو رہی ہے، لیکن ہنوز سعودی حکومت اور ہندوستانی حکومت کے درمیان کوئی حتمی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2021 میں دورۂ حج کو لے کر بھی کئی لوگوں کے من میں خدشات ہیں۔


بہر حال، عازمین حج کی خدمت کرنے والی کئی رضاکار تنظیمیں اس بات پر سوال کر رہی ہیں کہ جب گزشتہ سال حج کے لیے فارم بھروائے گئے تھے اور 300 روپے فیس بھی وصول کی گئی تھی، تو اس سال دوبارہ فارم بھرنے کے لیے فیس کیوں طلب کی جا رہی ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی اٹھایا جا رہا ہے کیونکہ خواتین کو پچھلے فارم پر ہی حج کروانے کی بات کی جا رہی ہے اور مرد حضرات کو اس سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کئی لوگوں نے حج کمیٹی آف انڈیا پر بدعنوانی کا الزام بھی عائد کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کمیٹی خدمت خلق کی جگہ کمائی کرنے میں مصروف ہو گئی ہے۔

دریا گنج میں ہوئی میٹنگ کے دوران گروپ آف حج اینڈ سوشل ورک آرگنائزیشن کے صدر حاجی محمد ادریس نے بھی حج کمیٹی آف انڈیا کے طریقہ کار پر انگلی اٹھائی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ آئندہ سالوں میں حج کا خرچ کم ہوگا اور پانی والے جہاز سے بھی عازمین کو بھیجا جائے گا، لیکن آج تک اس بات پر عمل نہیں کیا گیا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ 45 دن کے حج کی جگہ 30 دن کا کر دیا گیا جس میں تین دن جانے سے قبل اور تین دن پہنچنے پر، اور پھر اسی طرح 3 دن واپس آنے پر لوگوں کو کوارنٹائن کیا جائے گا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس کا خرچ بھی عازمین سے ہی لیا جائے گا۔ حاجی محمد ادریس نے کہا کہ کوارنٹائن کا خرچ حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کو پورا خرچ اٹھانا چاہیے۔


میٹنگ کے دوران حج کمیٹی آف انڈیا کو ممبئی سے دہلی منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا اور کہا گیا کہ راجدھانی دہلی میں حج کمیٹی آف انڈیا کا دفتر آ جانے پر بدعنوانیاں ختم ہو جائیں گی اور بہتر طریقے سے کام ہو پائے گا۔ اس دوران میٹنگ میں شامل حاجی محمد اسعد میاں نے کہا کہ حج کو سستا کیا جائے اور عازمین کو ٹورسٹ کی طرح فائدہ مند اسامی تصور کرنے سے بچا جائے۔ حج کمیٹی کا قیام عوام کو سہولت دینے کے لیے ہوا تھا، اس لیے وہ منافع حاصل کرنے والی کمپنی کی طرح کام کرنا بند کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔