گجرات اسمبلی انتخاب: پہلے مرحلہ میں 167 امیدوار داغی، 100 پر قتل اور زنا جیسے سنگین معاملے، عآپ سرفہرست

گجرات میں پہلے مرحلہ کے دوران 89 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوگی، ان سیٹوں کے لیے 788 امیدوار میدان میں ہیں، اے ڈی آر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 167 امیدواروں کو مجرمانہ معاملوں کا سامنا ہے۔

اے ڈی آر لوگو، بشکریہ adrindia.org
اے ڈی آر لوگو، بشکریہ adrindia.org
user

قومی آوازبیورو

گجرات اسمبلی انتخاب کے پیش نظر ریاست میں برسراقتدار بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس اور عآپ بھی اپنا پورا زور لگا رہی ہے۔ سبھی پارٹیاں اپنے امیدواروں کے حق میں ہوا سازگار بنانے کے لیے ریلیاں اور عوامی جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ اس درمیان اے ڈی آر (ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس) نے جمعرات کے روز ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں سبھی پارٹیوں کے داغی امیدواروں کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ گجرات میں پہلے مرحلہ کے دوران 89 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوگی۔ مجموعی طور پر ان سیٹوں کے لیے 788 امیدوار میدان میں ہیں۔ اے ڈی آر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے 167 امیدواروں کو مجرمانہ معاملوں کا سامنا ہے۔ ان میں عام آدمی پارٹی (عآپ) کے امیدوار سرفہرست ہیں۔ اے ڈی آر کی طرف سے جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ عآپ کے 32 امیدوار مجرمانہ معاملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ کانگریس اس معاملے میں دوسرے اور بی جے پی تیسرے نمبر پر ہے۔


رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجرمانہ معاملوں والے 167 امیدواروں میں سے 100 پر قتل یا زنا جیسے سنگین الزامات ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مجموعی امیدواروں میں 21 فیصد پر مجرمانہ معاملے ہیں، جبکہ 13 فیصد پر سنگین الزامات ہیں۔ عآپ 89 سیٹوں میں سے 88 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کر رہی ہے اور اس کے 36 فیصد امیدواروں پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اروند کیجریوال کی قیادت والی پارٹی عآپ کے 30 فیصد امیدوار قتل، عصمت دری، حملہ، اغوا جیسے سنگین معاملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ عآپ ریاست میں صاف اور بدعنوانی سے پاک حکومت دینے کا وعدہ کر رہی ہے، اور پہلے مرحلہ میں اسی کے سب سے زیادہ امیدوار داغی ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 25 ستمبر 2018 کو جو حکم صادر کیا تھا اس کے مطابق سبھی سیاسی پارٹیوں کو زیر التوا مجرمانہ معاملوں اور ایسے امیدواروں کے انتخاب کی وجوہات کی جانکاری اپنی ویب سائٹ پر اَپلوڈ کرنا لازمی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جانکاری کو ایک مقامی اور ایک قومی روزنامہ اخبار میں شائع کرنا اور آفیشیل سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اَپلوڈ کرنا لازمی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔