شاملی ماب لنچنگ گراؤنڈ رپورٹ: صرف کہنی لگنے پر پیٹ پیٹ کر کیا گیا سمیر کا قتل

مہلوک سمیر کی ماں کہتی ہیں کہ 2 سال قبل شوہر کے انتقال کے بعد کنبہ کے سب سے بڑے بیٹے ہونے کے ناطے سمیر نے موٹر میکینک کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا اور اس کا واحد ہدف بہن اور بھائی کو پڑھانا تھا۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مغربی اتر پردیش کے شاملی ضلع کے بنت میں 24 سالہ سمیر احمد کا کنبہ اس کی ملازمت مستقل ہونے کی خوشی ایک دن بھی نہیں منا پائی۔ مقامی ڈاٹا سروس سنٹر میں لگی ملازمت میں ضروری آدھار کارڈ بنوانے پہنچے سمیر کا محض اس لیے پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا کیونکہ اس کی کہنی آدھار اَپ ڈیٹ کرانے والی بھیڑ میں اسی کے پڑوس کے ایک لڑکے سے چھو گئی تھی۔ سمیر کی ماں کہتی ہے کہ یہی اس کا سب سے بڑا جرم تھا، جس کے بعد سمیر احمد کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دی گیا۔ سمیر کے تاؤ خالد کی مانیں تو اس کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے 8 سے 10 لڑکوں نے اسے سر کی جانب سے پٹکا جس سے اس کی موت ہو گئی۔ خالد بتاتے ہیں کہ ان میں سے کچھ کٹر ہندو تنظیموں کے لیڈروں سے قربت رکھتے ہیں۔

یہ واقعہ شاملی کے بنت میں 9 ستمبر کی شام تقریباً 6 بجے پیش آیا، جس کے تعلق سے قومی آواز کے نمائندہ نے سمیر کے گھر جا کر حالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بنت شاملی ضلع کا ایک قصبہ ہے اور یہ ضلع ہیڈکوارٹر سے بمشکل 5 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ بنت ایک مسلم اکثریتی قصبہ ہے اور جلال آباد اور کیرانہ کی طرح شاملی ضلع کا سب سے اثردار مسلم آبادی والا قصبہ ہے۔ ویسے تو بنت ہمیشہ سے ہی ایک فرقہ وارانہ خیر سگالی اور بھائی چارے والا قصبہ رہا ہے، لیکن 2018 میں مقامی نگر پنچایت الیکشن میں یہاں کے ایک امیدوار وجاہت علی خان کو مبینہ طور پر غلط طریقے سے شکست دیے جانے کے بعد دونوں طبقہ میں کچھ تلخی آ گئی تھی اور ایسی ہی تلخی یہاں 2013 کے فساد کے دوران بھی دکھائی دی تھی۔


سبھی ملزمین کا گھر 10 ہزار کی آبادی والے اسی قصبے میں ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ چھوٹا قصبہ ہونے کے سبب یہاں سبھی آپس میں ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے۔ مقامی پولیس اسی بنیاد پر کہہ رہی ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے پرانی رنجش ہو سکتی ہے، لیکن مہلوک سمیر کی ماں فاطمہ کہتی ہیں کہ والد کی موت کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے انھیں اٹھانے کی کوشش میں لگے سمیر کی کسی سے کوئی رنجش نہیں تھی۔

سمیر کی غمزدہ ماں
سمیر کی غمزدہ ماں

فاطمہ کہتی ہیں کہ 2 سال پہلے ان کے شوہر راحیل کے انتقال کے بعد کنبہ کے سب سے بڑے بیٹے ہونے کے ناطے سمیر نے موٹر میکینک کے طور پر کام کرنا شروع کیا تھا اور اس کا واحد ہدف بہن اور بھائی کو پڑھانا تھا۔ اس کی تو یہاں کی ایک موٹر کمپنی (ٹاٹا) میں میکینک کی ملازمت لگی تھی، جس کے لیے وہ کاغذات درست کروانے میں لگا تھا۔ آدھار کارڈ میں کوئی کمی تھی جسے ٹھیک کرانے کے لیے وہ پاس کے ایک پبلک سروس سنٹر میں گیا تھا، جہاں اس کا قتل کر دیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا، میں کیسے کہہ سکتی ہوں! 2 سال پہلے میں نے اپنے شوہر کو گنوا دیا تھا، اب سہارا بھی ختم ہو گیا۔


بنت کے محلے پریم نگر میں رہنے والی فاطمہ کے جیٹھ خالد ہم سے کہتے ہیں کہ ’’سر، آپ تو بس ان حملہ آوروں کو گرفتار کروا دیجیے۔‘‘ خالد بتاتے ہیں کہ 8 نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا ہے اور یہ سبھی بنت کے ہی رہنے والے ہیں۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ سمیر کو اس کے مذہب کی وجہ سے مار ڈالا گیا، لیکن وہ یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ سبھی ملزم ایک خاص نظریہ رکھنے والے ہیں اور ان کی شبیہ غنڈوں والی ہے۔

سمیر کا کنبہ
سمیر کا کنبہ

آدرش منڈی تھانہ کے کوتوال سنیل نیگی کے مطابق معاملے میں محلہ آزاد نگر باشندہ وطن راج اور وردان چودھری کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور باقی کی گرفتاری کی کوششیں جاری ہیں۔ آدرش منڈی تھانہ میں درج ایف آئی آر کے مطابق وتن راج ولد سوپال، وردان ولد منٹو، اکشے ولد کلو، راج ولد راجیش، آشیش ولد ہریش چندر، لکی ولد گبر، آیوش رانا ولد نردیش رانا اور بھوندا ولد بھارت نے رنجش کی وجہ سے سمیر احمد کا قتل کیا ہے۔ ایسا بس اسٹینڈ سے اترتے وقت ہوا۔ حالانکہ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جھگڑا آدھار کارڈ بنوانے کے دوران کہنی لگنے سے ہوا۔


سمیر کے تاؤ خالد زور دے کر کہتے ہیں کہ سبھی کی جلد از جلد گرفتاری ہونی چاہیے۔ سمیر کی گیارہویں میں پڑھنے والی بہن ارم بتاتی ہے کہ پاپا کی موت کے بعد اس کی پڑھائی چھوٹ گئی تھی، لیکن سمیر نے اسے کہا کہ جب تک اس کا بھائی زندہ ہے تب تک پڑھ، اب میرا بھائی بھی نہیں رہا۔ اسے مارنے والے گاؤں کے غنڈے ہیں۔ انھیں سب جانتے ہیں، سب ان سے ڈرتے ہیں۔ سمیر کے چھوٹے بھائی آصف نے بھی ابھی 10ویں کا امتحان پاس کیا ہے، جب کہ مزید ایک بھائی ریحان درجہ 6 میں پڑھتا ہے۔ ارم بتاتی ہے کہ یہ سب بڑے بھائی کے دم پر پڑھ رہے تھے، اب کوئی نہیں پڑھے گا۔

سمیر کے دوت رضوان نے بتایا کہ سمیر ویسے تو عام لڑکوں کی طرح تھا، لیکن تین سال پہلے اس کے ابو کے انتقال کے بعد اس میں کافی بدلاؤ آ گیا تھا، اور وہ ہمارے ساتھ کم ہی رہتا تھا۔ وہ جھنجھانا (پاس کا ہی ایک قصبہ) میں گاڑیوں کو ٹھیک کرنے کا کام کر رہا تھا۔ اب اس کی کسی کمپنی میں ملازمت لگی تھی۔ اس کی موت کے بعد تو گھر پر قہر کا عالم ہے۔ ان کا سب کچھ ختم ہو گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔