میرٹھ سے گراؤنڈ رپورٹ: سبھی 7 سیٹوں پر بی جے پی کو مخالفت اور اندرونی چپقلش کا سامنا

فی الحال بی جے پی کے پاس میرٹھ میں 5 اراکین اسمبلی ہیں، بی جے پی میرٹھ میں سوتی گنج میں کباڑیوں کے خلاف کی گئی کارروائی کو انتخاب میں ایشو بنا رہی ہے، اس کارروائی کو ایک علامت کی شکل میں پیش کر رہی ہے

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں میرٹھ کی سبھی اسمبلی سیٹوں پر بی جے پی خراب حالت میں ہے۔ میرٹھ کو لے کر پارٹی لیڈروں کی پیشانی پر شکن دکھائی پڑ رہی ہے۔ سوتی گنج کی پولیس کارروائی اور مسلم ووٹوں کی تقسیم ہی ان کی آخری امید ہے۔ اس گراؤنڈ رپورٹ میں میرٹھ کی سبھی 7 سیٹوں پر ووٹروں میں بی جے پی کے خلاف آپ کو غصہ صاف نظر آئے گا۔

میرٹھ سے گراؤنڈ رپورٹ: سبھی 7 سیٹوں پر بی جے پی کو مخالفت اور اندرونی چپقلش کا سامنا

میرٹھ کی کٹھور اسمبلی کے ایک گاؤں امین آباد کے وسیم اکرم 3 سال پہلے کے ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کے ایک نوجوان اکرام کے لاپتہ ہونے کے بعد گاؤں کے لوگ اجتماعی کوشش سے اسے تلاش کرنے میں لگ گئے۔ گاؤں میں بہت ملنسار ماحول ہوتا ہے۔ پورا گاؤں ساتھ میں تھا۔ گاؤں والوں میں بات چیت ہوئی کہ کسی لیڈر کی مدد لی جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ سابق وزیر شاہد منظور کے پاس چلتے ہیں۔ کچھ نے کہا کہ ان کی حکومت نہیں ہے، تو شاید انتظامیہ ان کی نہ سنے۔ گاؤں میں پنچایت ہوئی۔ جاٹوں نے کہا کہ بی جے پی رکن اسمبلی ستیہ ویر تیاگی کے پاس مدد کے لیے وہ جائیں گے۔ جاٹ ہمیں ساتھ لے کر گئے اور وہاں رکن اسمبلی جی نے سر عام کہا کہ ’’ویسے میں ’ان کے‘ کام کرتا نہیں ہوں، لیکن آپ ساتھ آئے ہیں تو کر دوں گا۔‘‘

میرٹھ سے گراؤنڈ رپورٹ: سبھی 7 سیٹوں پر بی جے پی کو مخالفت اور اندرونی چپقلش کا سامنا

وسیم اکرم بتاتے ہیں کہ اس بات پر ہمارے گاؤں کے جاٹ بھائی اکھڑ گئے۔ انھوں نے کہا کہ رہنے دو رکن اسمبلی جی ہم اپنا کام خود کرا لیں گے۔ وہ ناراض ہو کر چلے گئے۔ اب جب رکن اسمبلی جی گاؤں میں ووٹ مانگنے پہنچے تو کسی نے ان سے سیدھے منھ بات نہیں کی۔ وسیم اکرم بتاتے ہیں کہ ان کے جاٹ اور مسلم اکثریتی گاؤں امین آباد میں بھائی چارہ تو پہلے سے ہی ہے، لیکن اس بار ووٹ ڈالنے میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ گاؤں میں کسان تحریک کا بہت اثر ہے، مقامی رکن اسمبلی سے ناراضگی بھی ہے۔

میرٹھ سے گراؤنڈ رپورٹ: سبھی 7 سیٹوں پر بی جے پی کو مخالفت اور اندرونی چپقلش کا سامنا

اسی گاؤں کے ذاکر علی بتاتے ہیں کہ گاؤں پالیٹکس میں عوام کے درمیان رہنے والے اور ان کی سننے والے کا خاصہ اثر رہتا ہے۔ یہاں کے اتحاد کے امیدوار شاہد منظور ایک خاندانی سیاسی لیڈر ہیں اور وہ لگاتار رابطے میں رہتے ہیں۔ منو شرما ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اس طرح کے ماحول میں بھی ذاتی طور سے امیدوار کو ووٹ کیا جا رہا ہے۔ شاہد منظور کا اپنا اثر ہے۔

میرٹھ سے گراؤنڈ رپورٹ: سبھی 7 سیٹوں پر بی جے پی کو مخالفت اور اندرونی چپقلش کا سامنا

کٹھور اسمبلی میرٹھ ضلع کی سب سے مشہور اسمبلی سیٹ ہے۔ اسے مسلم سیاست کی ضلع بھر کی دھری سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سے بی جے پی کے ستیہ ویر تیاگی اور سماجوادی پارٹی کے شاہد منظور کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہی ایک ایسی اسمبلی سیٹ ہے جہاں ذات پات کا فارمولہ فیل ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں یہاں ذاتی رشتوں پر ووٹ کیا جا رہا ہے۔

ذاکر علی بتاتے ہیں کہ 2017 کا انتخاب ہارنے کے بعد شاہد منظور نے مختلف گاؤں میں آپسی رنجش دور کروانے کا ایک بڑا کام کیا۔ بدقسمتی سے یہاں ہر انتخاب میں تشدد ہو ہی جاتا تھا۔ شاہد منظور تجربہ کے ساتھ اور زیادہ سمجھدار ہو گئے ہیں۔ کٹھور میں 31 فیصد مسلم کے ساتھ دلت، گوجر اور تیاگی ووٹرس نتیجہ خیز کردار میں ہیں۔ بی ایس پی اور کانگریس دونوں گوجر امیدوار لڑا رہے ہیں۔

میرٹھ سے گراؤنڈ رپورٹ: سبھی 7 سیٹوں پر بی جے پی کو مخالفت اور اندرونی چپقلش کا سامنا

کٹھور کے پلّی گاؤں کے بھرت سنگھ کہتے ہیں کہ 60 ہزار گوجر ووٹوں نے چاروں ہی پارٹی کو خوش کرنے کا ذہن بنا لیا ہے اور وہ شاہد منظور کو بھی چھکوا (اچھی مقدار میں) ووٹ دیں گے۔ بھرت سنگھ بتاتے ہیں کہ بی جے پی رکن اسمبلی کی بے حسی اور شاہد منظور کا ہارنے کے بعد بھی ان کے ساتھ کھڑے رہنا ان کے حق میں جاتا ہے۔ کٹھور اسمبلی سیٹ سے شاہد منظور کئی بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ان کے والد منظور احمد بھی یہاں سے رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے تھے۔ جاٹ ووٹر اس سیٹ پر شاہد منظور کی طاقت کو بہت زیادہ بڑھا رہے ہیں۔

میرٹھ کی 7 اسمبلی سیوں میں سیوالکھاس اور سردھنا کی جغرافیائی حالت حیرت پیدا کرتی ہے۔ جیسے سیوالکھاس لوک سبھا باغپت میں آتی ہے اور سردھنا لوک سبھا مظفر نگر میں، لیکن دونوں سیٹ میرٹھ ضلع میں لگتی ہے۔ سیوالکھاس میں بی جے پی امیدوار اپنے خلاف لگاتار ہو رہے احتجاج سے نبرد آزما ہے تو سردھنا میں بی جے پی کے شعلہ بیان لیڈر سنگیت سوم کی دھن اس بار مدھر نہیں بن پا رہی ہے۔ سردھنا سے سماجوادی پارٹی کے اتل پردھان گوجر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جاٹ ووٹرس کی حمایت بھی انھیں مضبوطی فراہم کر رہی ہے۔ اتل پردھان یہاں سے دو بار انتخاب ہار چکے ہیں۔ گوجر ووٹروں میں یہاں ان کے تئیں ہمدردی ہے۔


سردھنا مسلم اکثریتی سیٹ ہے۔ سنگیت سوم ٹھاکر اور بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک کے سہارے ہیں۔ مگر مسلمانوں کی یک طرف حمایت اتل پردھان کی مسکان کا سبب بن گئی ہے۔ پھلاودا قصبے کے شہباز احمد بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو اسمبلی انتخاب میں اتل پردھان انتخاب ہار گئے تھے۔ ایسا مسلم ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس بار مسلم متحد ہیں اور جاٹ ووٹر بڑی تعداد میں اتحاد کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کے متحد ہونے کی بڑی وجہ سنگیت سوم کا سلوک بھی ہے۔

سردھنا سے بالکل ملی ہوئی ہستناپور سیٹ پر اتحاد بلّیوں اچھل رہا ہے۔ اس محفوظ سیٹ کی تاریخ ہے کہ جو بھی یہاں سے رکن اسمبلی بنتا ہے، صوبے میں حکومت اسی پارٹی کی بنتی ہے۔ بی جے پی یہاں اپنے رکن اسمبلی دنیش کھٹیک کو لڑا رہی ہے۔ ٹکراؤ اس سیٹ پر بھی سیدھے اتحاد اور بی جے پی میں دکھائی دے رہا ہے۔ کانگریس نے یہاں فلم اداکارہ ارچنا گوتم کو ٹکٹ دیا ہے، جو توجہ کا مرکز ہیں۔ سماجوادی پارٹی یہاں یوگیش ورما کو لڑا رہی ہے۔ یوگیش ورما اسی سیٹ سے رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ان کی بیوی سنیتا ورما میرٹھ شہر کی میئر ہیں۔ یوگیش ورما میرٹھ ضلع میں دلت سیاست کا سب سے بڑا چہرہ ہیں۔

میرٹھ سے گراؤنڈ رپورٹ: سبھی 7 سیٹوں پر بی جے پی کو مخالفت اور اندرونی چپقلش کا سامنا

ہستناپور، کٹھور اور سردھنا میں اتحاد امیدوار کی حمایت خوب دکھائی دے رہی ہے۔ ان سیٹوں پر دلت، مسلم اور گوجر ووٹر کہانی بدلنے میں اہل ہیں۔ بی جے پی نے اس جوڑ توڑ کا جواب ٹھاکر، کھٹیک اور تیاگی اتحاد سے دیا ہے، جو امید کے مطابق کمزور نظر آ رہا ہے۔ ہستناپور کے سدیش کمار کہتے ہیں کہ ذاتیوں کا جوڑ توڑ اور عوام کی سوچ دونوں بی جے پی حکومت کے خلاف ہے۔ کسانوں کا غصہ بی جے پی پر پھوٹ کر پڑنے والا ہے۔

حالات یہ ہیں کہ بی جے پی میرٹھ شہر کی جن تین سیٹوں پر مضبوط دکھائی دیتی ہے، وہاں بھی اندرونی چپقلش ہے۔ میرٹھ شہر، جنوب اور کینٹ دونوں سیٹ پر بی جے پی مسلم ووٹوں کی تقسیم کے سہارے ہے۔ شاستری نگر میں رہنے والے ششانک شرما بتاتے ہیں کہ میرٹھ جنوب اسمبلی سیٹ پر سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور مجلس کے امیدواروں کے مسلم ہونے کے سبب بی جے پی کے سومیندر تومر کی جیت صاف دکھائی دے رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی یہاں عادل چودھری کو لڑا رہی ہے جب کہ بہوجن سماج پارٹی نے دلشاد شوکت کو امیدوار بنایا ہے۔ میرٹھ شہر سے بی جے پی نے کمل دَت شرما کو ٹکٹ دیا ہے جب کہ سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی رفیق انصاری کا کھیل قریشی ووٹروں نے بگاڑ دیا ہے۔ میرٹھ کینٹ میں پہلی بار بی جے پی دقت میں ہے۔


میرٹھ کے رشید نگر کے رہنے والے غفار احمد بتاتے ہیں کہ میرٹھ جنوب اور شہر میں بی جے پی نے لکشمی کانت واجپئی کو امیدوار نہ بنا کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی تھی۔ لیکن قریشی برادری کی ناراضگی نے اسے آکسیجن دینے کا کام کیا ہے۔ فی الحال بی جے پی ان تین سیٹوں پر مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ فی الحال بی جے پی کے پاس میرٹھ میں 5 اراکین اسمبلی ہیں۔ بی جے پی میرٹھ میں سوتی گنج میں کباڑیوں کے خلاف کی گئی کارروائی کو انتخاب میں ایشو بنا رہی ہے۔ اس کارروائی کو ایک علامت کی شکل میں پیش کر رہی ہے۔ حالانکہ دلت ووٹروں کی خاموشی کچھ اور ہی کہانی کہہ رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔